• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہانگیر بدر بڑے خوش قسمت نکلے، سیاسی رسوائیوں کے اس دور میں اپنی رہی سہی عزت بچا کر اگلے جہان کو سدھار گئے۔انہوں نے نصف صدی تک سیاست کی۔ جس پارٹی سے عملی سیاست کا آغاز کیا مرتے دم تک اسی پارٹی میں سیاست کی۔ کچھ سال پہلے پیپلز پارٹی پنجاب کے ایک اہم رہنما تحریک انصاف میں چلے گئے۔ تحریک انصاف کے ہجوم میں انہیں تنہائی محسوس ہوئی تو انہوں نے جہانگیر بدر کو اپنی سیاسی تنہائی کا ساتھی بنانے کی کوشش کی۔2013ءکے الیکشن سے پہلے جہانگیر بدر کو تحریک انصاف میں لانے کی کوشش ابتدائی مرحلے میں ناکامی سے دو چار ہوگئی کیونکہ بدر صاحب نے اپنے پرانے دوست سے کہا کہ میں جیتے جی سیاسی جنازہ نہیں بننا چاہتا۔ ان کا یہ کردار مرنے کے بعد ان کی پارٹی کا سرمایہ افتخار بن گیا ہے۔ وہ ان سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کے چاروں فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف مزاحمت کی اور ان کے قیدی بھی بنے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سرپرستی میں انہیں سیاسی عروج ملا لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد وہ پس منظر میں چلے گئے۔ جب تک محترمہ بینظیر بھٹو زندہ تھیں تو جہانگیر بدر انتہائی متحرک رہتے تھے۔ پارٹی کے اندر اور باہر اپنے حریفوں کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں رہتے لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد وہ بجھ سے گئے۔ 2012ءمیں میاں منظور احمد وٹو کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنایا گیا تو پارٹی کے کچھ ناراض عناصر نے جہانگیر بدر کو اپنے ساتھ ملا کر بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ بدر صاحب نے اپنے ناراض ساتھیوں سے کہا کہ میں محترمہ بینظیر بھٹو پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا ہوں اور فی الحال میری پہلی و آخری ترجیح یہ پی ایچ ڈی ہے۔2013ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے یہ پی ایچ ڈی مکمل کرلی۔ اس پی ایچ ڈی کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ اس خاکسار کے ساتھ نشستیں کیں۔ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کی طرف سے مجھے لکھے گئے کچھ خطوط تک رسائی چاہتے تھے۔ میں نے کچھ خطوط انہیں دے دئیے لیکن کچھ کے بارے میں معذرت کرلی کیونکہ میرے خیال میں یہ نجی گفتگو کے زمرے میں آتے تھے اور ان خطوط کے منظر عام پر آنے سے کچھ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو سبکی محسوس ہوتی۔ بدر صاحب نے میرے ساتھ اتفاق کیا اور کہا کہ پی ایچ ڈی کے بعد وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے منتخب خطوط کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہانگیر بدر اکثر کہا کرتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں ان سے کہا کرتا کہ کیا آپ اپنی تاریخی غلطیوں کا کبھی اعتراف کریں گے؟ وہ بڑی سنجیدگی سے کہتے کہ ایک دن یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنی غلطیوں کا شدت کے ساتھ احساس تھا۔
10اپریل1986ءکا دن مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ پیپلز پارٹی کی سیاست کے دوبارہ عروج اور پارٹی کے نظریے کو زوال کا دن تھا۔ اس دن محترمہ بینظیر بھٹو اپنی جلا وطنی ختم کرکے لاہور آئیں تو ایسا لگا کہ پورا پاکستان ایک شہر میں سمٹ آیا ہے۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالبعلم تھا اور تمام تر کوشش کے باوجود گورنر ہائوس سے آگے نہ جاسکا۔ جہانگیر بدر ٹرک پر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ سوار تھے اور اتنے بڑے استقبال پر ہر طرف سے شاباش وصول کررہے تھے۔ یہ ٹرک انارکلی کے قریب پہنچا تو پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنوں نے’’بھٹو کا قاتل امریکہ‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ ٹرک سے حکم دیا گیا کہ یہ نعرہ نہ لگایا جائے۔ جذباتی کارکن یہ نعرہ لگانے سے باز نہ آئے تو نعرے بازوں کی پٹائی ہوگئی۔
محترمہ بینظیر بھٹو کا استقبال اتنا بڑا تھا کہ اس معمولی پٹائی کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی لیکن اس پٹائی کا الزام جہانگیر بدر پر آگیا۔ 1988ءکے انتخابات میں جہانگیر بدر نے لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور وفاقی وزیر پٹرولیم بنے۔ ان کی حکومت صرف20ماہ قائم رہی لیکن وہ اس مختصر عرصے میں اندرون لاہور کے کئی علاقوں کو گیس فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ 1990ءمیں اندرون لاہور سے وہ شہباز شریف کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ اس الیکشن میں جو ہوا اس کی تفصیلات تو اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں آچکی ہیں لیکن جہانگیر بدر نے اپنا پرانا حلقہ چھوڑ دیا۔1993ءکے الیکشن میں وہ اندرون لاہور کو چھوڑ کر گلبرگ، گارڈن ٹائون اور ماڈل ٹائون کے حلقے میں چلے گئے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی نشست سے بھی الیکشن لڑا۔ اس الیکشن کے دوران ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے محترمہ بینظیر بھٹو کی انتخابی مہم میں پنجاب کے کئی علاقوں میں ان کے ساتھ جانے کا موقع ملا۔ ہر جگہ جہانگیر بدر ان کے ساتھ ہوتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ منڈی بہائوالدین میں محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا اور رات مہدی حسن بھٹی کی رہائش گاہ پر قیام کیا۔ یہاں پر رات کو جہانگیر بدر، بشیر ریاض، شاہد نواز، منور سہروردی اور میں زمین پر لیٹے آئندہ حکومت کے عہدے بانٹ رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ جہانگیر بدر وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے ۔ میں نے ہڑ بڑا کر کہا کہ جہانگیر بدر کو قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں سے ہروادیا جائے گا۔ یہ سن کر بدر صاحب بڑے ناراض ہوئے۔ اگلے دن انہوں نے یہ بات محترمہ بینظیر بھٹو کو بتادی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ کوئی فیئر اینڈ فری الیکشن نہیں ہے نواز شریف کو حکومت سے نکال کر آپ کو اقتدار دیا جارہا ہے لیکن آپ کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی، آپ کے اہم ساتھی ہر وا دئیے جائیں گے پنجاب میں آپ کو مکمل اقتدار نہیں ملے گا بلکہ پاور شیئرنگ ہوگی۔ اس الیکشن میں جہانگیر بدر لاہور سے دونوں نشستیں ہار گئے لیکن بعدازاں ہمیشہ میرے شکر گزار رہے کیونکہ محترمہ یہی سمجھتی تھیں کہ جہانگیر بدر کو دھاندلی سے ہرایا گیا۔
1994ءمیں جہانگیر بدر کو سینیٹر بنایا گیا اور وزارت مذہبی امور دی گئی۔ یہ حکومت بھی مدت پوری نہ کرسکی اور 1996ءمیں فارغ ہوگئی۔ اس کے بعد جہانگیر بدر کوئی الیکشن نہ جیت سکے۔2009ءمیں دوبارہ سینیٹر بنائے گئے اور اس کے بعد وہ تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول نے انہیں بہت عزت دی اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں وہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ نظر آئے۔ انہوں نے1967ءمیں سیاست شروع کی تو ڈکٹیٹر ایوب خان کا عروج تھا۔ 2016ءمیں جہانگیر بدر نے دنیا سے کوچ کیا تو چوتھا ڈکٹیٹر پرویز مشرف ایک مفرور ملزم ہے اور پاکستان واپسی کے لئے سیاسی سہارے ڈھونڈ رہا ہے۔ جنرل ضیاء کے کوڑے کھانے کے بعد کچھ عرصہ کے لئے جہانگیر بدر بھی بیرون ملک چلے گئے لیکن جلدی واپس آگئے اور پھر گرفتار ہوگئے۔ سیاسی کارکن اور ڈکٹیٹر کا یہی فرق ہے۔ سیاسی کارکن گرفتاری سے نہیں ڈرتا۔ الیکشن ہار کر بھی جیت جاتا ہے، مرکے امر ہوجاتا ہے۔ ڈکٹیٹر گرفتاری اور موت دونوں سے ڈرتا ہے۔

.
تازہ ترین