• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین و حضرات!زندگی کی کہانی زندگی سے بہت پہلے، یہاں تک کہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے اور اس کا عنوان ہے ’’قانون کی حکمرانی‘‘ سو ایسے میں قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی معاشرہ ’’انسانی‘‘ کیسے کہلا سکتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر تو کوئی ’’شیطانی نیٹ ورک‘‘ بھی ممکن نہیں۔ ہم جسے طنزیہ استہزائیہ انداز میں ’’جنگل کا قانون‘‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں تو یہ بات نظرانداز کررہے ہوتے ہیں کہ جنگل بھی اپنے مخصوص قوانین کے تابع ہی چل رہا ہوتا ہے اور جنگل کا کوئی جانور اس کے کسی قانون کوپامال کرنے کی جرات کیا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ قانون قدرت نے اسے اس کی جبلت میں سمو اور پرو دیا ہوتا ہے۔ شیر چیتا کبھی گھاس نہیں کھائے گا، زرافہ اور ہرن کبھی ماس نہیں کھائے گا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جنگلوں میں درخت مالیوں، کھادوں، کیڑے مار دوائوں، گوڈیوں اور کانٹ چھانٹ کے بغیر کس طرح پھلتے پھولتے پھیلتے اور پروان چڑھتے ہیں؟ میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ ایکڑوں میں پھیلے ہوئے سینکڑوں فٹ اونچے برگد یا اوک کے درخت کے اوپر اور آخری پتے تک پانی کیسے پہنچتا ہے۔ زیر زمین پانی یقیناً کسی ان لکھے ان دیکھے قانون کے تحت ہی زمین کے نیچے سے نکل کر جڑوں اور تنوں سے ایک مخصوص رفتار کے ساتھ کوسوں کا سفر کر کے سینکڑوں فٹ کی دوری پر آخری شاخ اور پتے تک بھی پہنچتا ہے تو دراصل وہ اپنی دنیا کے مختلف قوانین کے نفاذ کے تحت ہی ایسا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ جو ان گنت، لاتعداد بیشمار کائناتیں نجانے کب سے، کتنے ارب کھرب ملینمز سے محو رقص، مصروف عمل مسلسل سفر میں ہیں تو یہ ساری ٹریفک مختلف قوانین کی حکمرانی کا زندہ کرشمہ ہے۔ یہ سب اپنی اپنی لین میں رہتے ہیں، رفتار کی حدود سے تجاوز ناممکن ہے، ٹریفک سگنل پر رکنا پڑتا ہے۔ انڈی کیٹر دیئے بغیر مڑ جائیں تو حشر بپا ہو جائے، انہیں آپس کے طے شدہ فاصلے قائم رکھنے پڑتے ہیں۔ یہ سب ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے شہکار ہیں۔ہم انسان کیا، ہماری اوقات اور بساط کیا؟ ان گنت گیلیکسیز کا اک حقیر سا ذرہ ہے یہ پلانیٹ جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں، زمین کہتے ہیں اور اس پر قانون کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی حماقت کے وقت بھول جاتے ہیں کہ صرف جنگل ہی نہیں پہاڑ، صحرا، سمندر، دھرتی سب اپنے اپنے قوانین کے تحت اپنی اپنی عمریں پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صحرا کبھی سمندر تھے اور آئس ایج سے ہوتے ہوئے ہم گلوبل وارمنگ کے اس عہد میں داخل ہو چکے ہیں جس کا ہم میں سے بیشتر کو شعور بھی نہیں کہ اس کامطلب کیا ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا تو یہ سب قوانین قدرت کے کرشمے ہیں۔حضرات! آپ جیسے باعلم لوگوں کی موجودگی میں بات کرنا مشکل ہے کیونکہ میں نہ قانون ساز نہ قانون دان نہ قانون نافذ کرنے والا نہ منصف اور انہی کمزوریوں مجبوریوں کے باعث مجبور ہوں کہ قانون اور قانون کی حکمرانی کو مائیکرونہیں میکرولیول پر دیکھوں۔ پیدائش سے لیکر موت تک کے درمیانی وقفے میں ہر عضو، ایک ایک سیل کے فنکشن سے لیکر بدن میں خون کی منصفانہ روانی تک یہ صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کی ہوشربا کہانی ہے۔ دل کی دھڑکن، پھیپھڑوں کے فرائض، لبلبے کی ڈیوٹی، پلکوں کا جھپکنا، ذائقے کی حس، گردوں کی بازی گری، انسانی انتڑیوں کی کئی کلومیٹر لمبائی۔ ایک ہی جسم پر بظاہر ایک جیسی کھال کا مختلف ہونا اتفاقی اورحادثاتی نہیں۔ یہ سب قوانین کے تحت وجود میں آئے اور قوانین کے تحت ہی کام کررہے ہیں۔ ایک حقیر سا سیل بھی قانون کی حکمرانی کو چیلنج یا پامال کرنے کی کوشش کرے تو وہی ہوگا جو زمین کے سورج گرد گھومنے سے انکار پر ہوگا۔انسانی معاشرہ کیا کائنات بلکہ کائناتیں "Rule of Law" کے تحت ہی چل رہی ہیں کہ "Rule of the Ruler"" بھی ہے Rule of Law کا نام کہ جہاں قانون ساز ہی قانون شکنی کو شیوہ بنا لے وہاں قدم قدم پر قیامتوں کا سامنا ہوگا۔ اگر بظاہر بے جان مخلوق قانون کی حکمرانی کے بغیر زندہ نہیں، اگر احقرالمخلوقات اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو اشرف المخلوقات کا توقصہ ہی کیا۔ٹین کمانڈمنٹس ہوں یا حمورابی کے قوانین، اشوکا کی لاٹ ہو یا عظیم ترک عثمانی سلطنت کا مسلمان عالیشان جسے سلمان قانونی بھی کہتے ہیں......انسان قانون کی حکمرانی کے خواب کی تعبیر تلاش کرتے کرتے کہاں سے کہاں آپہنچا؟ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا میں بنیادی اور جوہری فرق بھی قانون کی حکمرانی کا ہونا نہ ہونا ہے۔ آئیڈیل معاشرہ ممکن نہیں۔ جہاں انسان ہوگا وہاں جرم بھی ہوگا اور گناہ بھی۔ قانون کی حکمرانی اسے کینڈے میں رکھنے کو یقینی بناتی ہے کہ یہی قانون قدرت کا اولین تقاضا بھی ہے۔قانون کی حکمرانی کا ایک مطلب ہے عدلیہ کی آزادی۔ جہاں عدلیہ آزاد نہ ہو وہاں عوام کی آزادی کا تصور بھی احمقانہ ہے اور آزادی خود قیدی بھی ہوتی ہے جیسے دریا اور سمندر اپنے کناروں کے قیدی ہوتے ہیں جسے یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔"MEN FIGHT FOR FREED0M AND THEN START MAKING LAWS TO GET RID OF IT."رہ گئے ہم جیسے معاشرے تو انہی کے بارے میں کہا گیا۔"TOO MANY LAWS ARE PASSED AND THEN BYPASSED."یا یہ کہ ......"THE ARM OF THE LAW NEEDS A LITTLE MORE MUSCLE."اور یہ کہ ......"WHERE LAW ENDS, TYRANNY BEGINS."شکریہ(ڈسٹرکٹ جیوڈیشری قصور کی تقریب میں پڑھاگیا)


.
تازہ ترین