• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل (ر)راحیل شریف بڑے عزت و احترام سے آرمی چیف کے عہدے سے رخصت ہوئے ہیں جوبہت اچھی بات ہے۔ ہر ایک ان کی تعریف کر رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مارشل لا نہیں لگایا اور اپنے 3سال میں بہت اچھے کام کئے۔تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے دور کے بڑے حصے کے دوران مارشل لا کا خطرہ رہا۔ یہ اچھی روایت ہے کہ آرمی چیف نے اپنی ٹرم کو 3سال تک ہی محدود رکھا جس کی قانون اجازت دیتاہے۔ بڑے احسن طریقے سے ٹرانزیشن وقوع پذیر ہوئی ہے اور نئے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ عہدہ سنبھال لیا ہے۔پاکستان میں یہ کم ہی ہوا ہے کہ آرمی چیف نے یہ منصب صرف 3سال تک رکھا۔ یہاں یا تومارشل لالگا کر دس دس سال تک اس عہدے پر قبضہ کئے رکھا یا سویلین حکومت کے دور میں 6سال تک آرمی چیف بنے رہے۔ہر وزیراعظم کی تو یہی سر توڑ کوشش رہی ہے کہ آرمی چیف اپنی مدت ملازمت صرف 3سال تک ہی محدود رکھیں مگر بعض اوقات ان پر اتنا دبائو ڈال دیا گیا کہ ان کے پاس سوائے ملازمت میں توسیع دینے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ راحیل شریف کے دور میںسول ملٹری تعلقات بالکل مثالی نہیں تھے اور ان میں اکثر و بیشتر کافی کھنچائو اور ٹکرائو کی کیفیت رہی جس کی بنیادی وجہ ’’ٹرف وار‘‘تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش رہی کہ وہ بہت سے ایسے معاملات جن سے آئین اور قانون کے مطابق اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ان میں بھی اپنا رول پیدا کرے۔ وزیراعظم نوازشریف بڑی حد تک اس بات کو مانتے رہے مگر بعض مواقع پر انہوں نے اس کی ہاں میں ہاں نہ ملائی تو تعلقات بگڑے۔اس کے باوجود کہ وزیراعظم کی ہر وقت کوشش رہی کہ آرمی چیف سے تقریباً تمام قومی معاملات میںبار بار مشورہ کیا جائے اور انہیں آن بورڈ رکھا جائے مگریہ حقیقت ہے کہ اس دور میں پاکستان میں ایک حکومت نہیں تھی بلکہ ایک دوسری حکومت بھی چلائی جارہی تھی۔نئے آرمی چیف کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان میں ایک بڑا ٹیسٹ یہ بھی ہے کہ وہ کس طرح سول ملٹری تعلقات کوبہتر اور مضبوط رکھیں اور اس پالیسی سے دور رہیں جس کی وجہ سے ہر وقت حکومت دبائو میں یا خطرات سے لاحق رہتی ہے۔ شاید ہی کوئی وزیراعظم ہو جواہم قومی معاملات میں آرمی چیف کے ساتھ مشورہ کرنے سے گریز کرے یا ان کی رائے کو اہمیت نہ دے۔ چاہے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو،پاک چین اقتصادی راہداری کے لئے تحفظ فراہم کرنا ہو یا بھارت،امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ہوں موجودہ وزیراعظم آرمی چیف کے مشورے کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں۔جب ایسا رویہ ہو تو پھر سول ملٹری تعلقات میں رخنہ نہیں پڑنا چاہئے۔ سابق آرمی چیف نے بہت سے قابل ستائش کام کئے مگر یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوا جب حکومت نے ایسے فیصلے کئے اور پارلیمان اورملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی کھل کر ان کی حمایت کی۔ دہشت گردوں کا خاتمہ سب سے اہم کارنامہ ہے جو صرف اس وقت ممکن ہوا جب وزیراعظم نے اس کا فیصلہ کیا، لگاتار اس کی سپورٹ کرتے رہے اور فوج کے کردار کی تعریف کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ آپریشن ضرب عضب صرف فوج نے ہی کرنا تھا نہ کہ کسی سویلین ادارے نے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن راحیل شریف کے آرمی چیف بننے سے 2ماہ قبل شروع ہو چکا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اس کا فیصلہ کیا تھا۔ سابق آرمی چیف نے اپنے دور میں اس آپریشن کی رفتار کو بڑھایا اور باربار اس کی مانیٹرنگ کرتے رہے جس کی وجہ سے اس کے بہترین نتائج سامنے آئے اور کراچی بڑی حد تک پرسکون ہو گیا۔ اپنے تئیں وزیراعظم بھی اس آپریشن کی نگرانی کرتے رہے تاکہ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے اور رینجرز کو فری ہینڈ ملا رہے۔ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ اس وقت آتا ہے جب اس طرح کے آپریشنز یا دوسرے اقدامات میں بہتری کا سارا کریڈٹ ایک پارٹی لینے کی کوشش کرتی ہے اور دوسری سائیڈ کے بارے میں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سنجیدہ نہیں ہے اور رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ اس روش کو بدلنا ہوگا کیونکہ اگر بہتری آتی ہے تو سب تعریف کے حقدار اور اگر کوئی خرابی ہوتی ہے تو بھی سب ہی کو موردالزام ٹھہرانا چاہئے۔کچھ عناصر یہ تو بار بار کہتے رہے کہ وزیراعظم بالکل ’’ڈمی‘‘ بن گئے ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ہی اہم اندرون ملک پالیسیاں اور امریکہ، بھارت اور افغانستان کے بارے میں پالیسی بنا رہی ہے مگر جب کوئی ناکامی ہو تو سارا ملبہ ’’ڈمی ‘‘ وزیراعظم پر ڈال دیا جائے۔یہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب وزیراعظم نوازشریف نے راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا تھا تو یہی بات ان کے سامنے تھی کہ وہ غیر سیاسی جنرل ہوں گے اور انتہائی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے۔ ان کی ففٹی پرسنٹ توقعات پوری ہوئیں۔ اس وقت بھی انہوں نے ایک سینئر جنرل کو بائی پاس کیا تھا اور ایک دوسرے سینئر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی لگا دیا تھا۔ اس بار بھی انہوں نے 3سینئر جنرلز کو سپر سیڈ کر کے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف لگایا ہے جبکہ حکومت کا صرف ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے۔نئے چیف سے بھی ان کی توقعات وہی ہیں جو سابق چیف سے تھیں۔یہ حقیقت ہے کہ 2014کے دھرنوں نے اس تقرری میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس تباہ کن ہنگامے کے دوران جنرل باجوہ کا رول پرو ڈیموکریسی تھا۔جنرل باجوہ بڑی اچھی شہرت کے حامل ہیں اور بقول ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے نہ تو وہ کسی پر ’’کاٹھی‘‘ ڈالتے ہیں اور نہ کسی کو اپنے اوپر ’’کاٹھی‘‘ ڈالنے دیتے ہیں۔ یہ بہت اچھی اپروچ ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب اپنے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دوسرا فریق اس کی مزاحمت کرتا ہے۔کوئی وجہ نہیں کہ آپریشن ضرب عضب،کراچی آپریشن اور پاکستان کے بھارت،افغانستان اور امریکہ سے تعلقات کے بارے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ہم آہنگی نہ ہو۔ جہاں تک بھارت کے گینگرسٹریزم کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں بھی دونوں کے درمیان کسی قسم کا اختلاف ہونے کا سرے سے کوئی امکان نہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بہت سے عناصر جن کی پچھلے 3سالوں میں بہت مشرومنگ ہوئی ہے کو لگام دی جائے جو اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے سول ملٹری تعلقات کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔انہی حضرات نے اس دور میں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے ہر وقت یہ ماحول پیدا کئے رکھا کہ حالات بہت خراب ہیں اور حکومت کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کر رہی اور فوج کے ہر اچھے کام میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔

.
تازہ ترین