• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطنِ عزیز کے دو قابلِ احترام دانشوروں نے بڑے پیار کے ساتھ توجہ دلائی ہے کہ آپ متوازن سوچ رکھنے والے ہیں لیکن ان دنوں اپنے کالموں میں نواز شریف کی زیادہ حمایت کر رہے ہیں۔ اُن کا مطلب تھا کہ آپ اس حوالے سے ہاتھ ذرا ہولا رکھیں ۔ہو سکتا ہے کہ کچھ دیگر احباب بھی اسی طرح سمجھ رہے ہوں اس لئے سوچا کہ آج کے کالم میں اس حمایت کی وجوہ پر اظہارِ خیال کر دیا جائے سب سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی لکھاری کسی کی حمایت کرے یا مخالفت میں لکھے یہ سب میرٹ پر ہونا چاہئے اس میں ذاتی پسند یا نا پسند والی بات قطعی نہیں ہونی چاہئے ضمیر اگر زندہ ہو تو اس سے بڑا کوئی محتسب نہیں ہوتا لہٰذا قلم ہمیشہ اس کی مطابقت میں اٹھے۔دوسرے یہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ جس طرح اچھے سے اچھے انسان میں کچھ نہ کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں اسی طرح ہر انسان میں خوبیاں خامیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک ذمہ دار لکھاری تو صیف یا تنقید کرتے ہوئے توازن کو بہرحال پیشِ نظر رکھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بحث ذات سے بڑھ کر سوچ ، فکر اور پالیسیوں کے حوالے سے ہونی چاہئے۔
وزیر اعظم نواز شریف کا بڑا مداح بھی انہیں آئیڈیل لیڈر قرار دے گا نہ قائداعظم بنا کر پیش کرے گا۔ نا چیز نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ قدرت نے میاں صاحب پر اتنی زیادہ عنایات کر رکھی ہیں ان رحمتوں، برکتوں اور نواز شات کا تقاضا تھا کہ وہ قطری یا سعودی مہربانوں سے ملنے والی خطیر رقوم کو چاہے وہ اپنے کاروباری فائدے میں ملی ہوں بیرونی املاک پر لگانے کی بجائے اپنی قوم پر خرچ کرتے ہوئے ایدھی صاحب کی طرح خدمت کی نئی مثالیں قائم کرتے ۔مثال کے طور پر شریف ٹرسٹ کے تحت وہ پورے ملک میں ڈسپنسریوں اور ماڈل تعلیمی اداروں کا جال بچھا سکتے تھے قوم نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے جتنی محبت پیش کی ہے کسی ایسے بڑے اقدام کی صورت میں یہ محبت اور بڑھتی یوں میاں صاحب کو جو خوشی اور تسکین ملتی وہ انمول ہوتی ۔
بہرحال یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوتی مگر ہم جب نواز شریف کو ان کے ہم عصر دیگر سیاستدانوں کے بالمقابل دیکھتے ہیں تو پھر آئیڈیلزم ختم ہو جاتا ہے اپنی سوچ اور پالیسیوں کے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو کوئی بھی اُن کے ہم پلہ دکھائی نہیں دیتا ۔ نواز شریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے قدم بہ قدم وقت اور حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نظری و عملی ہر دو حوالوں سے وہ ہماری موجودہ قومی سیاست میں سب سے بہتر مقام پر فائز ہیں ۔جناح صاحب کے بعد اگر ہمیں کوئی جچا ہے تو وہ پچھلے دور میں سہرو ردی صاحب تھے اور حالیہ دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تھیں۔ ان کے بعد قومی سطح پر نواز شریف ہی کی شخصیت رہ جاتی ہے۔
وطنِ عزیز کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے رول سے کوئی بھی پڑھا لکھا شخص بے خبر نہیں ہو سکتا حالات کے اس جبر میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھٹو صاحب ہو ں یا میا ں صاحب دونوں انہی بیساکھیوں کے ذریعے قیادت کے مقام تک پہنچے اور مابعد ہر دو لیڈران نے سچے قومی رہنما بننے کی کاوش میںاسٹیبلشمنٹ کے شکنجے کو چیلنج کرتے ہوئے اسے توڑنا چاہا، اس سلسلے میں محترمہ کی طرح انہیں بھی قربانیاں دینا پڑیں، مشکلات میں گرفتار بھی ہونا پڑا۔ بھٹوکے بالمقابل میاں صاحب نے اس حوالے سے اگر زیادہ جذباتیت نہیں دکھائی تو ہم اسے ان کی خوبی سمجھتے ہیں عقل شعور اور دانش کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا خود مرنا یا قوم کو مروا دینا جذباتی لحاظ سے جتنا بھی قابلِ فخر بنا کر پیش کیا جائے حقائق پر نظر رکھنے والا کوئی مردِ دانا اس کی تحسین کرنے میں مشکل محسوس کرے گا ۔ایسی قربانی کا کیا فائدہ جس کی آؤٹ پٹ اعلیٰ مقاصد کو فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچائے اور آپ کے کاز کو کئی دہایوں کے لئے پیچھے پھینک دے۔
99ء میںمیاں صاحب نے تھوڑی سی جذباتیت یا شتابی دکھائی، ردِ عمل میں اچھا خاصا نقصان اٹھایا اس سے سبق سیکھتے ہوئے انہوں نے 2013ء کے بعد عقل شعور اور حوصلے سے کام لیا تو مشکل ترین مرحلے میں خیریت سے گزر گئے، اب عدالت اُن کے ساتھ کیا کرتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ایسی ہی کیفیات جب شریک چیئرمین کو درپیش تھیں تو وہ اپنی تمام تر تیزطراری یا ہوشیاری کے باوجود اعصاب کی ایسی مضبوطی دکھا سکے نہ بہتر حکمت عملی اپنا سکے نتیجتاً طوہاََ و کراہاََ انہیں ایک سال ہی نہیں پورے تین سال دینے پڑ گئے آج وہ جو بھی کہیں کہ اگر میں ایسے نہ کرتا تو نیچے والے مشرف کی طرح دبا لیتے لیکن جو کچھ آپ نے کیا اس نے آپ کو کچھ کرنے کے قابل تو نہیں چھوڑا، ہاتھ تو بندھے رہے نا ،حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کے بالمقابل آپ کی اپوزیشن آپ کی پشت پناہ بنی کھڑی رہی ۔نواز شریف کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دم چھلا بنے بغیر حکمت سے وقت گزارا اور ایک دن زائد نہیں دیا۔
نواز شریف کا تیسرا کارنامہ جو انہیں اپنے دیگر ساتھیوں سے ممتاز کرتا ہے انہوں نے مذہبی انتہا پسندی کو کسی بھی رنگ روپ میں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اس حوالے سے انہوں نے وقت سے اتنا سیکھا ہے کہ اُن سے آگے والے بھی پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اپنے تمامتر منفی ماضی کو یکسر کارنر کرتے ہوئے انہوں نے کس قدر فکری حریت کا مظاہرہ کیا ہے کہ ہم وطن عزیز کو ایک ’’لبرل ماڈریٹ ریاست ‘‘بنانا چاہتے ہیں پھر جو کہا ہے تمامتر مشکلات کے باوجود اس کی لاج رکھی ہے فی الحال ہم ان تین پوائنٹس پر ہی اکتفا کرتے ہیں اخباری نزاکتوں کی وجہ سے ہم ان کی امثال و تفصیل میں نہیں جا سکتے بس سمجھنے والے خود ہی سمجھ جائیں۔

.
تازہ ترین