• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو دولخت کرنے کا سانحہ قوم کےلئےسوہان روح ہے لیکن دوسال قبل اسی تاریخ کو اسکول میں پڑھتے معصوم پھولوں اور پاکستان کےمستقبل کے روشن چراغوں کو بجھانے کے لئے ظلم وبربریت برپا کرکے قومی درجے کا قوی غم دیا گیا جو دہائیوں تک نہیں بھلایا جا سکے گا، پوری قوم کےلبوں پر ایک ہی سوال ہےکہ ہم نے اب تک سبق کیا سیکھا؟ جواب ملک کے ’’کرتا دھرتا‘‘ سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ،دل و دماغ غم سےگرفتہ ہے لیکن سب خاموش ،سچ بولنے،سامنے لانے اور ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے حقائق چھپانے اور جموریت کی پتلی آڑ میں ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی افسوسناک روایت جاری ہے۔
قارئین کرام ،زندہ قومیں اپنے تلخ تجربات و ناقابل فراموش واقعات کو اپنے لئے ایک سبق سمجھتے ہوئے آنے والے کل کے بہتر و محفوظ راستے کا تعین کرتی ہیں، ایسے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں جن سے ایسے واقعات کا دوبارہ رونما ہونا ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہوجاتا ہے، اس کی ایک بڑی مثال امریکہ کا نائن الیون کا سنگین واقعہ اور اس کے بعد کئے جانے والے فول پروف اقدامات ہیں۔ بارہا سوچا، اے پی ایس کے تازہ زخم لگانے والے ’’سفید دستانوں‘‘ میں چھپے سفاک خون آلود ہاتھوں کے ظلم اور اپنی بےبسی کا نوحہ لکھوں لیکن کیا کروں 71ء میں دائیں بازو (مشرقی پاکستان) کٹنے کا دل گیر سانحہ، ’’اسی دشمن‘‘ کا چہرہ بےنقاب کرنے پر اصرار کرتا ہے جس کا اقبال جرم ’’مودی‘‘ خود بار بار یہ کہہ کر کرتا ہے کہ یہ اس کی ’’انتھک جدوجہد‘‘ کا نتیجہ ہے..... یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اندورنی سماجی و معاشی مسائل اور جمہوریت کے عدم استحکام کے عوامل کے ہوتے ہوئے پاکستان کا ٹوٹنا مغرب کی ’’عالمی سازش‘‘ کا حصہ تھا؟ جس میں ’’اپنے پرائے‘‘ سب شامل تھے۔ دراصل پاکستان دشمنی 47 ءکی آزادی سے پہلے ہی شروع ہوچکی تھی کیونکہ اس وقت دو نظریات روسی ’’کیمونزم‘‘ اور امریکی ’’کیپٹل ازام‘‘ کے نظاموں کےدرمیان جنگ کا آغاز ہوچکا تھا، دنیا کے بڑے سورمائوں کیلئے ایک نئی نظریاتی ریاست یعنی ’’اسلام‘‘ کے نام پر نئے ملک کا قیام ناگوار تھا، جنوبی ایشیا کا علاقہ اپنے محل وقوع اور وسائل کےحوالے سے اہم ترین تھا اور مسلم حکمرانی کی تاریخ دہراتے ہوئے دیکھنے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا، ایک بڑی وجہ، مسلمانوں کا دنیا کی دوسری بڑی ’’عددی حقیقت‘‘ ہونا بھی تھا،باوجود مشکلات اور رکاوٹوں کے پاکستان بن گیا، ابھی سنبھل نہ پائے تھے کہ ایک سال بعد قائداعظم چل بسے اور چار سال بعد لیاقت علی خان قتل کر دئیے گئے، ابتداء میں ہی مشکلات کا شکار کرنے کا ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد عالمی طاقتوں نے مسلسل عدم استحکام کرنے کی ایسی باقاعدہ مہم چلائی کہ 51ء سے 58ء کےسات برسوں میں 7 وزراء اعظم آتے جاتے رہے،حالانکہ بھارت میں جواہر لال نہرو 17 برس تک یعنی اپنی طبعی موت تک وزیراعظم رہے، 58ء میں قائد کے ناپسندیدہ نظام کو مسلط کرتے ہوئے فوجی تاریخ میں مبینہ طور پر تیزترین ترقی پانے والے جنرل ایوب خان نےپہلا مارشل لا لگا دیا، جس مقصد کے لئے لائے گئے اس کی طویل اقتدار کے ذریعے خوب تکمیل کی۔ اس سے قبل دیکھا جائے تو روس کا جنوبی ایشیا میں معاشی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر گہرا اثرورسوخ تھا لیکن پاکستان نے امریکی دبائو پر اس کی ایشیا میں کمیونزم کے پھیلائو روکنے کے لئے بنائی گئی دو علاقائی تنظمیوں سیٹو SEATO کا1954 ء اور1955ء میں سینٹو CENTO کی رکنیت لی، اس حرکت کا روس نےسخت نوٹس لیا اور بھارت کو اپنی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی آماجگاہ بنالیا، مغربی پاکستان رقبے اور مشرقی پاکستان آبادی کےلحاظ سے بڑا تھا فاصلوں میں بٹے پاکستان کے زمینی حقائق اتنے تکلیف دہ نہ تھے لیکن بھارت نے دشمنی خوب نبھائی، اپنوں میں نفرت کےبیج بونے کا موقع ضائع نہیں کیا اور پھر دوریاں تو تھیں لیکن دلوں میں فاصلے بھی بڑھ گئے، جس سے دونوں طاقتوں امریکہ اور روس نے اپنے اپنے مقاصد کے تحت بھرپور فائدہ اٹھایا، روس کےسابق انٹیلی جنس افسر Yuri Brezemov نے اپنی کتاب "Deception was my job" … میں لکھاہےکہ ’’روسی انٹیلی ایجنسی میںبیرون ملک سےبھرتی کئےجانے والے خفیہ ایجنٹس میں مجیب الرحمان بھی شامل تھا جس کو ’’مخصوص ایجنڈے‘‘ کے لئے استعمال اور ’’ٹارگٹ‘‘ حاصل کرنے پر انجام تک بھی پہنچایا گیا۔ ’’بھارت نے مکتی باہنی سے قبل روسی مدد سےتمام محاذوں پر ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کرلیا تھا، 71ء میں جنگ شروع ہوئی، پاکستان اپنے ’’دیرینہ دوست‘‘ امریکہ کی راہ ہی تکتا رہاکہ مغربی ایجنڈے کی تکمیل ہوگئی یہ باعث عبرت تھا کہ اسے ’’پارٹ آف گیم‘‘ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو بچانےکی خاطر ’’سرنڈر‘‘ کیا، لیکن بات سرنڈر اور پاکستان کے دولخت ہونےپرختم نہیں ہوئی، اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شرما نے دعویٰ کردیا کہ چند دن اور دیں باقی ماندہ مغربی پاکستان کو بھی انجام سے دوچار کردوں گا.....! اس صورت حال میں امریکہ نےمغربی پاکستان کو اپنی ضرورت سمجھتے ہوئے مداخلت کی اور امریکی صدر نکسن نےہندو نیشنل ازم کے توسیعی کے نشے میں چور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو فون کرکے کہا کہ ’’بوڑھی چڑیل بس بہت ہوگیا‘‘۔
قارئین عالمی سازشی منصوبہ اور کیا ہوتا ہے؟ دولخت ہونے کی وجوہات اور حقائق جاننے کے لئے جسٹس حمود الرحمان کمیشن بنایا گیا جس نے رپورٹ تو بنائی لیکن اسے ایسا دبایا گیا کہ آج تک باضابطہ سامنے نہیں لائی گئی، شاید غیروں کی منشا پر اپنے کردہ گناہوں کا پردہ مقصود تھا؟ آج بھی مجھ سمیت پوری قوم رنجیدہ ہے اور ذہن متلاشی ہے کہ سانحہ اے پی ایس سولہ دسمبر کو ہی کیوں کیا گیا؟ شاید جواب کسی کےپاس نہیں۔
قارئین محترم، قوموں کی زندگیاں تجربات، مشکلات اور عزم نو سے عبارت ہوتی ہیں، بڑے اور چھوٹے سانحات روز ہوتےہیں اور غم والم دے جاتے ہیں لیکن زندہ قومیں جان بچانے کے لئے ہتھیار نہیں ڈالتیں بلکہ بہادر شہیدوں کے لاشوں سے ہمت و طاقت اخذ کرکے کامیابی کی صبح کا آغاز کردیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں عزت و وقار اور غیرت سے رہنے کا واحد راستہ یہ ہی ہےکہ ماضی کے تلخ حقائق پر مٹی ڈالنے کے بجائے ان کا دلیری سے سامنا اور وجوہات کا جائزہ لیا جائے، ذلت و رسوائی اور شکست کے اسباب جانے جائیں، اندوہناک واقعات کے محرکات تلاش کئے جائیں، غلطیوں کو دہرانے کی بجائے سچ کی پناہ اور قوم کو اعتماد میں لے کر ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنے کی نئی صف بندی کی جائے..... لیکن شاید 70 برسوں سے جاری آزمائشوں کے اس سفر میں کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ بس بہت ہوگیا، اب وطن عزیز انٹرنیشنل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مزید میدان جنگ بننے کو تیار نہیں؟ دولخت ہونے سمیت ماضی کے تلخ واقعات اور سانحات کے حقائق عوام کے سامنے لانا اب کمزوری نہیں بلکہ روشن مستقبل کی پیش بندی کے لئے ضروری ہے؟ صد افسوس کہ اے پی ایس کےننھے و معصوم شہیدوں کی دکھی مائوں اور ہم جیسے دلگیروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ہی خاطر تحقیقاتی کمیشن تک نہیں بنایا گیا، حالت یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عام ہونے والی چشم کشا کوئٹہ سانحہ پر جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ کو حکمراں تسلیم کرنے کو تیار نہیں؟ معصوم فرشتوں کے انمول خون کی قیمت پر بننے والے نیشنل ایکشن پلان کو ’’سیاسی مصلحتوں‘‘ اور ’’جمہوریت کو شدید خطرات‘‘ کے باعث کوڑے دان میں ڈال دیا گیا ہے، شاید ہم خود بھی سفاک ہوچکے ہیں کہ ملک کے ٹوٹنے جیسےناقابل برداشت اور درندوں کے ہاتھوں اپنے بچوں کو بربریت کا نشانہ بنتے دیکھنا گوارا کرتے ہیں اور معمولی واقعہ سمجھ کر بھلا دینا چاہتے ہیں ،شاید ہم ان میں سے ہیں جو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ہمت ویقین نہیں رکھتے اور اپنی مجبوریوں کو اپنی معذوریوں میں بدل کر اقوام عالم کے سامنے محکوم و مقروض ہی رہنا چاہتے ہیں.....!




.
تازہ ترین