• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین کو معاشرے میں کمتر سمجھنے والے تصور کو ختم کرتے ہوئے انہیں اعلیٰ مقام دلانے کیلئے کوشاں پاکستانی حکومت گاہے بگاہے ایسے اقدامات اٹھاتی رہتی ہے جن کی بدولت عالمی دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوسکے۔ آج کے جدید دور میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں وہیں خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی اہلیت کو منوایا ہے۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ خواتین کے اندر بے پناہ صلاحیتیں پنہاں ہیں بس انہیں صحیح طرح سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہی خواتین کی صلاحیتوں کواجاگر کرنے کیلئے حکومت پنجاب نے 2014میں Special Monitoring Unit (SMU) کو متعارف کروایا جس کے ذریعے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اصلاحات کی جارہی ہیں۔ خصوصاً خواتین کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کی خاطر کی جانے والی کاوشیں لائق تحسین بھی ہیں اور قابل ذکر بھی۔ SMU وزیراعلیٰ پنجاب اور حکومت کیلئے ایک تھنک ٹینک کی طرح کام کرتا ہے اور ایسے کاموں کی منصوبہ بندی کرتا ہے جو عوام کی زندگیوں کی بہتری اور ان کے مسائل کو نچلی سطح پر حل کرسکیں۔ SMU کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو یہ یونٹ چند افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کی کارکردگی ان اداروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جوبرسوں سے کام کر رہے ہیں اور ان کا بجٹ بھی بہت زیادہ ہے۔ معاشرے سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے قلیل مدت میں کی جانے والی کاوشیں اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس نے صرف دو سال کے مختصر عرصہ میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے 30سے زیادہ اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ ادارے کی کارکردگی کا ذکر کیا جائے تو ادارے کے سربراہ سلمان صوفی کا ذکر بھی ضروری ہے جن کی شبانہ روز محنت سے ادارہ اتنی اچھی اصلاحات متعارف کروانے میں کامیاب ہوا۔ سلمان صوفی دو سال سے SMU کو رضاکارانہ طور پر چلا رہے ہیں اوراس مقصد کیلئے وہ امریکہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ SMUکی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو عورتوں پر تشدد پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ تھا۔ عورت چاہے گھر میں ہو یا وہ کہیں کام کرتی ہو، اس کو مردوں کی حکمرانی ہی تسلیم کرنا پڑتی تھی اوربعض اوقات اس کی آواز سننے والا کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ خصوصاً وہ عورتیں جو دیہات میں رہتی ہیں اور کم تعلیم یافتہ ہیں ان کو اپنے حقوق سے بالکل آگاہی نہیں تھی۔ اس لئے ضروری تھا کہ عورتوں کیلئے ایک باقاعدہ قانون بنایا جائے جو ان کو اس بے رحم معاشرے میں حقوق فراہم کرنے کا ضامن ہو۔ اس کے پیش نظر 2016ءمیں تحفظ ِ نسواں کاایکٹ پاس کروایا گیا جس میں عورتوں کے خلاف تشدد کے استعمال کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں پہلی مرتبہ عورتوں کو تشدد سے تحفظ دینے کیلئے ایک سینٹر کا قیام عمل میں لایاگیا جس کا نام Violence Against Women Center ہے۔ اس ادارے کامقصد یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی شکایات کا اندراج کروانے کیلئے دربدر دھکے کھانے کی ضرورت نہیں وہ صرف یہاں جاکراپنی شکایت کا اندراج کروائیں اور ہر طرح کی قانونی مدد ان کو ایک ہی دفتر کے ذریعے مل جائے گی۔ یقیناً یہ ایک خوش آئند اقدام ہے جس سے معاشرے میں عورتوں کو تحفظ ملے گا۔ علاو ہ ازیں خواتین ہی کیلئے حکومت پنجاب نےWomen On Wheels (WOW) کو متعارف کرایا ہے جس سےخواتین کو موٹرسائیکل کی سواری کی تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اس کی باقاعدہ افتتاحی تقریب لیاقت باغ روڈ، نیشنل کالج آف آرٹس میں منعقد کی گئی ۔ اس سے قبل لاہور میں کم ازکم 150خواتین موٹرسائیکل سواروں نے وومن آن وہیل ریلی میں نیشنل مانیٹرنگ یونٹ اور ٹریفک پولیس کی جانب سے کروائی جانے والی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد حصہ لیا تھا۔ اس سے نہ صرف عورتوں کو آمد و رفت میں سہولت حاصل ہوگی بلکہ پاکستان کے کلچر میں بھی ایک خوشنما تبدیلی رونما ہوگی اور خواتین کے موٹرسائیکل کے استعمال کو معیوب نہیں سمجھا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ملتان، لاہور، سرگودھااور فیصل آباد میں کامیاب لانچنگ ہوچکی ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین پہلے ہی موٹرسائیکل کو بطور ذریعہ آمد و رفت استعمال کرتی ہیں۔
پنجاب پولیس پاکستان کی سب سے زیادہ بدنام پولیس سمجھی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور رشوت اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے پولیس اپنے اصل مقاصد سے غافل ہوچکی ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے اور پولیس کو اپنے حقیقی مقصد سے آگاہی دینے کیلئے پولیس میں اصلاحات کا خاکہ تیار کیا گیا ہے جس پر عمل کرنے کیلئے SMU کے تحت پولیس کے نظام میں تبدیلی بھی لائی جارہی ہے اور اس کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے تاکہ امن کا دور دورہ ہو اور انصاف لوگوں کو گھر کی دہلیز پر ملے۔ اس ضمن میں U-Report System متعارف کرایا گیا ہے جو Intelligence کا کام کرتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ایک ہیلپ لائن Police Rescue Helpline اور ویب سائٹ بھی متعارف کروائی گئی ہے۔ ان تمام جدید طریقوں کے استعمال سے جہاں پولیس کے نظام میں بہتری آئے گی وہیں عوام کو انصاف کے حصول میں آسانی بھی ہوگی۔ اس احسن اقدام کی وجہ سے یقیناً پولیس کا عوام میں امیج بہتر ہو جائے گا۔
SMUایک انقلابی اقدام ہے اور یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ایکسائز ، ٹیکسیشن کی مانیٹرنگ بھی اسی یونٹ کے ذمے ہے۔ جعلی نمبر پلیٹوں اور گاڑیوں کی غیرقانونی رجسٹریشن سے جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھا جارہا تھا۔ SMUنے اس ضمن میں ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے اور D.V.R یعنی Dealer Vehicle Registration System ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سسٹم ہے جس کے تحت گاڑیوں کی رجسٹریشن اور لائسنس کا اجرا ڈیلر کے پاس ہی ممکن ہوسکے گا۔ یقیناً یہ بہت بڑی سہولت ہے اس سے جہاںگاڑیوں کی بروقت کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن ہوسکے گی وہیں رشوت اور غیرقانونی لین دین کا بہت بڑا دروازہ بھی ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ یہ عوام کی سہولت کا صرف ایک قابل ستائش قدم ہے۔ اس سے یقیناً آنے والے دنوں میں پنجاب کے عوام مستفید ہوں گے اور ان کا قیمتی وقت اور مال بھی محفوظ رہے گا۔ SMUنےٹریفک کے نظام کوبہتر بنانے کیلئے انتہائی اہم اقدام اٹھائے ہیں جن میں انجینئرنگ، تعلیم اور قوانین کو نافذالعمل بنانے کیلئے خصوصی کاوشیں کی گئی ہیں۔ قبرستانوں کو ہمیشہ ہی نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں زندہ شہریوں کی رہائش کیلئے اقدامات ضروری ہیں اسی طرح بعداز مرگ بھی ان کے حقوق کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں ماڈل قبرستانوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں ایک ٹول فری نمبر پر کال کرکے تدفین کے تمام مراحل میں امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں بہت فائدے پہنچائے ہیں وہاں ایک بہت بڑا نقصان یہ پہنچایا ہے کہ لوگ کتب سے دور ہو کرکمپیوٹر مشینوں میں قید ہو کررہ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں SMUکے تحت موبائل لائبریریوں کا قیام عمل میںلایا گیا ہے۔ اس سہولت کے تحت کتب کو لائبریری کی شکل میں جگہ جگہ پہنچایا جائےگا تاکہ لوگوں کی کتابوں اور مطالعہ کرنے کی طرف رغبت بڑھے۔
پاکستان میں کھانے پینے کا کاروبار عروج پر ہے جس کا براہ راست تعلق عوام کی صحت سے ہے اور خصوصاً پنجاب میں کھانے پینے کے کاروبار میں بہت بے احتیاطی سے کام لیاجاتا ہے اور حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں لوگوں میں پھیلنا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت ِ پنجاب نے SMUکے تحت اقدامات کئے ہیں جس میں ہوٹلوں، ریسٹوران اور کھانے پینے کے پوائنٹس کو گریڈ کیاجائے گااور صفائی اور کھانے کے معیار کو سامنے رکھا جائےگا۔
SMUکی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ مفادِ عامہ کے کاموں اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کیلئے سرگرم ہے اور کم بجٹ میں معاشرے سے برائیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کیلئے بہترین خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس ادارے کی کارکردگی میں مزید اضافہ کرنے کیلئے دورِ حاضر کے مطابق سہولتیں فراہم کی جائیں اور بجٹ میں اضافہ بھی کیاجائے تاکہ معاشرے سے برائیوں کے خاتمہ اور انسانیت کی خدمات کیلئے یہ ادارہ مزید اصلاحات متعارف کروا سکے۔ (ماخوذ)

.
تازہ ترین