• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان چپقلش کئی محاذوں پر جاری ہے تاہم عالمی اکھاڑے میں سب سے بڑی جنگ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کے حوالے سے ہورہی ہے، پانچ ایٹمی ممالک(N5) امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی کو بھی ایٹمی قوت نہیں بننے دیں گے، اس کیلئے انہوں نے ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ وضع کیا جس پر کئی ممالک نے بشمول پاکستان اور بھارت دستخط نہیں کئے،، بھارت نے ایٹمی عدم پھیلائو کی پرواکئے بغیر 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کردیا۔ پاکستان کیلئے یہ سخت خطرے کی علامت تھی، وہ 1971 ء کے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے صدمے سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی اسکے بعد 1975ء میں ایٹمی طاقتوں نے کسی اور ملک کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے ایٹمی سپلائرز گروپ (این ایس جی)بنا ڈالاکہ اگر کوئی اور ملک ایٹمی آلات یا مواد کسی ایک ملک سے حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے 48 ممبران کو مطلع کردے گا یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدہ پرد ستخط نہ کرنے والےملک کو اس گروپ کا ممبر نہیں بنایا جائے گا اور وہ اس ملک کو وہ ایسے آلات، مشینری، مواد یا کوئی ایسی چیز نہیں دیں گے کہ وہ ایٹم بم بنانے میں مدد دے۔ اس کیلئے آسٹریلین اورWassener گروپ بن گئے مگر اسکے باوجود پاکستان نے 1983ء میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی، امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو ختم ، منجمد یا محدود کرنےکی کئی سنجیدہ کوششیں کیں مگر پاکستان نے ان سب کو ناکام بنادیا، البتہ عالمی طور پر ہمیں ایٹمی قوت نہیں مانا گیا ۔پھر بھی پاکستان نے پہل کرتے ہوئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ سے 2003ء سے تعاون کرنا شروع کردیا تھا، اِسکے کئی اجلاسوں میں شرکت کی اور اسکے معیار اور قوانین پر عملدرآمد کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر پاکستان کی بجائے امریکہ نے بھارت کے ساتھ 6 ستمبر 2006ء سول ایٹمی معاہدہ کرلیا، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھارت کو خصوصی استثنیٰ دے کر ایٹمی عدم پھیلائو معاہدہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ پاکستان نے اِسکی مخالفت نہیں کی۔ اسوقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ بھارت کو استثنیٰ دینے کے معاملے کو کیوں روکا نہیں گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اسطرح ہم اپنے آپ کو بھی روکتے۔ بھارت کو مزید مراعات یہ ملی کہ اسکے سارے ایٹمی ری ایکٹرز عالمی ایٹمی تنظیم کے معائنہ کی زد میں نہیں آئے۔ جو 6 ستمبر 2006ء کے معاہدہ کے تحت موجود تھے جس پر اسوقت کے پاکستان اسٹرٹیجک پلانس ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل خالد قدوائی نے کہا تھا کہ ایسے معاہدہ کی اگر پاکستان کو پیشکش کی گئی تو وہ اسپر دس مرتبہ سوچیں گے۔ جنوری اور ستمبر 2015ء کو اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مشترکہ بیان میں بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ دینے کی بات کی گئی چنانچہ 12 مئی 2016ء کو بھارت نے تو 19 مئی 2016ء کو پاکستان نے اس گروپ کی ممبر شپ کی درخواست دیدی، اسپر 9 جون 2016ء کو ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا اور پھر 20 تا 24 جولائی 2016ء سیول جنوبی کوریا اجلاس ہوا۔ جس پر چین، ترکی، برازیل، آئرلینڈ، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی ممبر شپ کی مخالفت کی مگر بعد میں کچھ ممالک نے امریکی دبائو میں مخالفت ختم کردی۔ اصول یہ ہے کہ این ایس جی کاکوئی ایک ممبر بھی کسی ملک کی ممبر شپ پر اعتراض کرے تو اُسکو ممبر شپ نہیں ملتی، پھر 11 نومبر 2016ء کو ارجنٹینا کے سفیر راجیل گروسی کی صدارت میں اجلاس کا انعقاد ہوا، اس میں ایٹمی عدم پھیلائو پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو ایٹمی سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے دو اقدامات تجویز کئے گئے ۔
ان اقدامات میں کہا گیا کہ جلد سے جلد ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدہ کے ہم پلہ ٹھوس طریقہ کار اور سیاسی، قانونی اور تکنیکی اعتبار پر نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ پر غور کیا جائے۔ ایٹمی عدم پھیلائو معاہدہ پر دستخط نہ کرنےوالے ممالک کو ممبر شپ دینے کے سوال پر اجلاس اب سوئٹزرلینڈ میں ہوا کریں گے کیونکہ سوئٹزرلینڈ کو اس اجلاس کی صدارت مل گئی ہے۔ اب تک کوئی 17 ممالک نے غیرایٹمی عدم پھیلائو کے ممالک کو این ایس جی میں شمولیت پر رائے دی ہے جبکہ 19 ارکان ممالک خاموش ہیں اور دس سے بارہ ممالک بھارت کو ممبر شپ دینے کے حق میں ہیں۔ جبکہ پاکستان کو چین، بیلاروس اور قازقستان کی طرف سے حمایت حاصل ہے تاہم پاکستان کا اس سلسلے میں کیس کافی مضبوط ہے، ایک تو وہ 2003ء سے این سی جی کے ساتھ تعاون کرتا رہا، اس کے وضع کردہ اصولوں پر عمل کرنا اسکی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ پاکستان کے پاس ایٹمی حوالے سے مہارت، افرادی قوت اور ہیکل اساسی موجود ہے۔ پاکستان اِس حیثیت کا مالک ہے کہ وہ ایٹمی ایندھن کی سائیکل سروس کو عالمی ایٹمی کمیشن کے زیرنگرانی اور اسکے میکنزم کو بلاامتیاز فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان ایٹمی اشیاء کو این سی جی کے تحفظات کے عین مطابق ایکسپورٹ کرسکتا ہے۔
پاکستان کے پاس ایٹمی ری ایکٹرز کو چلانے کا 42 سالہ بے داغ تجربہ ہے اور عالمی ایٹمی کمیشن اِسکو مانیٹر کرتا رہا ہے۔پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کےقابل تعریف و تحسین و تحفظ کا اچھا ریکارڈ رکھتا ہے اور ایٹمی پروگرام کے تحفظ کی تربیت دوسرے ممالک کو سکھانے کیلئے دستیاب ہے۔ بجلی کی پیداوارکے حوالے سے بھی ہماری صلاحیت قابل قدر ہے، جس میں کراچی کینوپ ایٹمی بجلی گھر کی مثال دی جاسکتی ہے جو 1974ء سے پاکستانی سائنسداں کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ دوسرے ایٹمی ٹیکنالوجی پُرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں جن میں دوائیںاور زراعت شامل ہیں پاکستان کی پیشرفت بہت اعلیٰ پایہ کی ہے، ایک ایٹمی ادارے CERN کے ممبر ہونے کے حوالے سے یہ کام ہم پہلے سے کررہے ہیں۔ ایٹمی تحفظ کے حوالے سے تاحال ہمارا ثانی نہیں۔ آزاد ادارے کے تحت ایٹمی کنٹرول اتھارٹی موود ہے اور جو واسیسز گروپ (WA) اور آسٹریلیا گروپ کے طرز پر بنایا گیا ہے جبکہ بھارت نے اپنے وہ ہی وعدے پورے نہیں کئے جو اس نے 2008ء کے معاہدہ میں کئے تھے، جیسے ایک دور سے دور میں داخل ہونا، ایٹمی مواد کی افزودگی روکنے کے معاہدہ پر دستخط کرنا ، FMCT) )خود مختار ایٹمی تحفظ کی ادارے کا نہ ہونا وغیرہ اس کے برعکس پاکستان کے پاس نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے حوالے سے ساری دستاویزات اور معتبریت موجود ہے، اس لئے اگر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں تو پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کا سو فیصد اہل ہے مگر بھارت کی ممبر شپ پر اعتراض اِس حوالے سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنانے میں تاحال ناکام رہا ہے اور اپنے وعدے پورے بھی نہیں کرسکا ہے۔

.
تازہ ترین