• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں سیاسی بھگدڑ ہے، سیاسی بیان بازی کا بازار گرم ہے ، سیاسی حملوں اور دفاع کرنے کی مہارت دکھائی جارہی ہے ، اور اس طوفان سیاست میں اتنی گرد اڑ رہی ہے کہ نہ صرف بہت ساروں کے چہرے گرد آلود ہو چکے ہیں بلکہ اس سیاسی گرد و غبار میں ملک کے بڑے بڑے مسائل چھوٹے پڑ گئے ہیں یا اس اڑتی ہوئی سیاسی دھول میں چھپ کر رہ گئے ہیں اور اصل مسائل جن پر کھل کر بات ہونی چاہیے انہیں منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے ، وہ اسی سیاسی دھول میں دب کر رہ جاتے ہیں ہم سب بھول چکے ہیں کہ چند ماہ قبل مری میں بااثر افراد نے ایک نوجوان لڑکی کو رشتے سے انکار پر زندہ جلا دیا تھا اس کا بھی نوٹس لیاگیا تھا ،لیکن کچھ نہیں، پولیس جو ہمیشہ طاقت ور کا ساتھ دیتی ہے اس نے اپنی روایات قائم رکھیں ، ہم سیاسی گردو غبار میں یہ بھول چکے ہیں کہ ایبٹ آباد میں ایک لڑکی کو محض اس وجہ سے جلا کر راکھ میں تبدیل کردیا گیا تھا کہ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنی ایک دوست کو پسند کی شادی کرنے اور گھر سے بھاگنے میں معاونت کی تھی ، ہم ان روح فرزا واقعات کو اس لئے بھی بھول جاتے ہیں کیونکہ ایک کے بعد ایک، ایسے وا قعا ت تواتر سے ہو تے رہتے ہیں اور ہم دو تین روز نئے کیس پر واویلہ کر کے آگے نکل جاتے ہیں ، گزشتہ روز ایک ہسپتال سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہسپتال کے درمیان بھاگ بھاگ کر علاج کیلئے ترسنے والی خاتون نے سیمنٹ کے سخت اور ٹھنڈے فرش پر تڑپ تڑپ کر جان دے دی، اور جواب میں حکومت نے’’ نوٹس ‘‘لے لیا، جب تک اس بوڑھی غریب کی انکوائری مکمل ہوگی کوئی دوسرا مریض یا مریضہ اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دیگی اور ہم اس کے پیچھے بھاگ پڑیں گے ، گزشتہ روز حافظ آباد کے ایک اسکول میں اسٹور کیپر اور جونیئر کلرک نے مبینہ طور پر ایک معذور طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پولیس اور دیگر حکام اس معاملے کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہیں، گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں میں ایک معصوم بچی کو گاؤں کے بااثر شخص کے کتوںنے کاٹ ڈالا۔
آپ اکثر بڑے بڑے شاپنگ مالز یا مارکیٹوں میں جائیں تو وہاں ایک بڑی بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک میلی کچیلی بچی بھی چلتی نظر آئے گی جس کے تن پر نہ ڈھنگ کے مکمل کپڑے ہونگے نہ پائوں میں جوتی، وہ سامان اٹھائے ہوگی یا بیگم صاحب کے بچے سنبھالتی نظر آرہی ہوگی، بیگم صاحبہ کے چہرے کی لالی کے مقابلے میں اس بچی کا جلا ہوا رنگ اور دھنسے ہوئے گال اس بات کی گواہی دے رہے ہوں گے کہ بیگم صاحبہ اس بچی کو اتنا بھی کھانے کو نہیں دیتیں جتنا اپنی بلی یا کتے کو ڈال دیتی ہوگیں ، ایسی ہی ایک بچی کی دو روز پہلے میں نے ٹی وی پر شکل دیکھی چہرے پر وحشت اورظلم کی داستان بآسانی پڑھی جاسکتی ہے اس کم سن بچی کی عمر ابھی گڑیوں سے کھیلنے اور کتابوں کے بیگ کے ساتھ اسکول جانے کی ہے لیکن وہ بیچاری گھر کے گندے برتن ، میلے کچیلے کپڑے اورگرد سے اٹے ہوئے فرش کی صفائی کے ساتھ ساتھ بڑے لوگوں کے پائوں بھی دباتی ہوگی اور ان بڑے لوگوں کے ٹھڈے کھا تی اور نفرت بھرے جملے بھی سنتی ہوگی، چہرے پر تھپڑ بھی کھاتی ہوگی لیکن کسی دوسرے نے اس کی دادرسی کیا کرنی ہے کسی دوسرے نے اسے کیا انصاف دینا اس کا تو غربت کا مارا باپ اسے انصاف نہیں دے سکا، وہی باپ جو اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹیوں کو اگر بیاہ کے بھی دوسرے گھروں میں روانہ کرتے ہیں تو آنسوؤں کی جھڑی روک نہیں پاتے ،اس نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں نے ان جج صاحب کو غیر مشروط طور پر معاف کردیا ہے جس گھر میں اس کی بیٹی کام کرتی تھی اور لڑکی نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی ہے اسے کسی نے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا یوں زخمی بچی نے اپنے زخمی جسم کے ساتھ ساتھ اپنی ننھی سی روح کو بھی زخمی کرلیا ہے ۔
اقتدار اور اختیارات کے نشے میں چور ایک اور شخص نے ملازمت کا جھانسہ دے کر غربت کی ماری ایک نوجوان لڑکی کو زبردستی نشہ آور دوا پلا کر اس کی عزت کو لوٹ لیا ، اب اس حوالے سے خبر یہ ہے کہ لڑکی کے والدین نے ملزم کو معاف کردیا ہے ، حالانکہ نئے قانون کے مطابق ایسے کیس میں خودا سٹیٹ مدعی ہوتی ہے اور اگر متاثرین معاف کربھی دیں توا سٹیٹ خود مدعی بن کر ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہے ، لیکن بااثر افراد بھی ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے متاثرین کو ڈراتے دھمکاتے ہیں جس کی وجہ سے عزت کے لٹے پٹے یہ لوگ اس میں عافیت سمجھتے ہیں کہ معا ف کر دیں تا کہ کہیں رہی سہی عزت بھی بیچ چوراہے میں اچھال نہ دی جائے ، اور حکمرانوں کا ایک ہی جوابی بیان ہوتا ہے کہ نوٹس لے لیا ہے لیکن نہ جانے کب یہ نظام بدلے گا کہ ہر کسی کی عزت محفوظ ہوگی اور کوئی طاقت کے بل بوتے پر اور کسی دوسرے کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی عزت تار تار نہیں کرسکے گا، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ’’ معا فی‘‘ کے ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کی بجائے ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائے ۔

.
تازہ ترین