• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارہا سوچتا ہوں، طے کرتا ہوں، قسمیں کھاتا ہوں او ر اٹل فیصلہ کرتا ہوں کہ پاکستان کی حالتِ زار پر نہیں لکھوں گا۔ اپنے جاننے والوں سے تائید طلب کرتا ہوں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں اعصاب شکن صورت حال ہے، نہ لکھو۔ پھر اخبار اٹھاتا ہوں، ٹی وی دیکھتا ہوں، انٹرنیٹ چھانتا ہوں، طرح طرح کے موضوعات نظر سے گزرتے ہیں، کچھ موضوع بھلے لگتے ہیں۔ سوچتا ہوںکہ لکھنا شروع کردوں،ایک ذرا مختلف عنوان چھڑے گا۔ مگر کیا کروں،کیا نہ کروں اس سوچنے سمجھنے کے عمل کا کہ وہ میری ایک نہیں سنتا۔ چاہتا ہوں کہ لاہور کے ایک بہت بڑے اسپتال کے ٹھندے فرش پر دم توڑدینے والی مریضہ کو بھول جاؤں،مگر پھر دل اور دماغ دونوں مل کر جو ملامت کرتے ہیں، آپ ہی شرمندہ ہوکر رہ جاتا ہوں۔
آج کل ایک انگریزی اصطلاح چلی ہے :ون لائنر۔one linerیعنی جو اصل میں کہنے کی بات ہے ایک سطر میں کہہ دو۔ تو میرے ذہن میں جو تلاطم ہے اس کا ون لائنر یہ ہے:اس ملک کا کوئی ownerہے؟جس طرح چل رہا ہے پرانے لوگ اس کو لشٹم پشٹم کہا کرتے تھے۔ بس چل رہا ہے، اب اور کچھ نہ پوچھو۔اور اگر پوچھ بھی لیا تو کیا کہیں کسی گوشے سے جواب آئے گا؟ یا ہر بار کی طرح اپنا سا منہ لیکر رہ جاؤ گے؟ملک قائم ہوئے دس بارہ برس ہوئے ہوتے تو کچھ معافی مل جاتی مگر عجب بات یہ ہے کہ وہ شروع کے دس بارہ سال تو بہت ہی سکھ چین کے برس تھے۔ ہم سب ایک نالہ پار کرکے دوسری طرف اپنی جھگّی میں جاکرآرام سے رہتے تھے اور اگلی صبح بائیسکل نکال کر کام پر روانہ ہوجاتے، واپسی میں روپئے کا چار سیر آٹا اور ساڑھے چار وپے سیر بکرے کا گوشت لیتے ہوئے گھرآتے۔ شکر ادا کرتے اور سو رہتے۔ مجھے یاد ہے جب پہلی بار نیو چالی کے ایک بینک میں ڈاکہ پڑا تھاتو لوگ سہم کر رہ گئے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اور پھر کیا نہ ہوا؟ کون سا ستم نہیں ٹوٹا، کون سی آفت نہیں آئی، زمانے نے کس طرح نگاہیں پھیریں اور وقت نے کون سا ظلم نہیں توڑا۔
اب زندگی کے جس شعبے پر نگاہ کرتے ہیں، دل بجھ کر رہ جاتا ہے اور اندر کہیں کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ستّر سال ہونے کو آرہے ہیں۔ جن چیزوں کو ترقی کرکے آسمانوں کو چھولینا چاہئے تھا، وہی تمام چیزیں حالات کا ماتم کر رہی ہیں۔ ذہن میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے۔ کیا مہذب ملک ایسے ہوتے ہیں۔ کیا اکیسویں صدی کے سولہ برس نمٹانے کے بعد بھی تیسرے درجے کے گھٹیا اسپتالوں کے ایک ایک بستر پر دو دو مریض لٹائے جارہے ہیں۔ یہ مریض خود کو خوش نصیب جانیں اور اُن کے لئے دعائے خیر کریں جوبرآمدوں کے ٹھنڈے فرش پر پڑے ہیں او ر کچھ دیر بعد خود بھی ٹھنڈ ے ہونے والے ہیں۔
یہی حال تعلیم کا ہے۔ میں نے نوجوانوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ہے جن کے گھروں میں فاقے ہیں او رجیب میں نہ داخلے کی رقم ہے نہ امتحان میں بیٹھنے کی فیس۔ جس ملک کے نوجوان حوصلہ ہار جائیں وہ ملک خود کو ہارا ہوا ہی سمجھے۔ اب رہ گئے وہ اسکول جن کے ماتھے پر لفظ ’سرکاری ‘ کا ٹھپّہ لگا ہوا ہے، ان میں نہ چار دیواری ہے، نہ واش روم، نہ کھیلنے کے میدان اور رہ گئی عمارت تو اس کی چھت گرنے کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیںجس میں کچل کر بچوں کے سر پھٹ جاتے ہیں۔ میں نے ایک بار کوہاٹ کے علاقے کا ایک اسکول دیکھا جہاں پہنچنے کے لئے بچوں کو ایک پل پر سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ سن کر کسی کو حیرت نہیں ہوگی کہ وہ ٖپل ٹوٹ کر بہہ گیا ہے۔ اب بچّے اپنے والد کے کندھوں پر بیٹھ کر پہاڑی نالے کے پار اترتے ہیں۔ یا پھر پانی چڑھا ہو توایک ناؤ والا اپنی کشتی لے آتا ہے اور پانچ پانچ روپے لے کر بچوں کو نالہ پار کراتا ہے۔ پھر اسکول کی چھٹی کے بعد ناؤ والا بچوں کی ناؤ پار لگاتا ہے۔ ان حکمرانوں سے تو یہ ناؤ والا اچھا۔
راہ چلتے لوگ لوٹے جارہے ہیں، کمسن بچّوں کے ہاتھ سے کھلونے چھینے جارہے ہیں، شادی گھر کے آگے دلہنیں لُٹ رہی ہیں، بینک سے پیسے نکلوانے والے چند قدم دور لوٹے جا رہے ہیں، غریبوں پر رئیسوں کے کتّے چھوڑے جارہے ہیں۔ گھرکے نوعمر ملازموں کو بری طرح مار کر اذیت دینے کی لذت لی جارہی ہے،زبردستی مذہب تبدیلی کے کیسز آرہے ہیں، شادیوں میں ہوائی فائرنگ کر کے باراتیوں کو ہلا ک کیا جارہا ہے، کچی شراب پی کے لوگ مکھی مچھر کی طرح مررہے ہیں۔دودھ میں وہ کیمیکل ملا یا جارہا ہے جس سے لاشیں محفوظ کی جاتی ہیں، گلی کو چوں میں جعلی دوائیں بن رہی ہیں، کھانے والے کو نہیں معلوم کہ کیا کھا رہا ہے اور پینے والے کو علم نہیں کہ کس زہر کا کیسا محلول رگ جاں میں گردش کر رہا ہے۔ یہ سب ہورہا ہے اور دیکھئے تو ایسے مٹی کے مادھو نظر آتے ہیں جیسے جانتے نہیں۔ کبھی یہ نہیں سنا کہ بس بہت ہوگیا۔ اب اسپتال بنیں گے اور اسکول بنیں گے، بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے اور ہم یہیں جئیں گے اور باقی خود ہی قیاس کر لیجئے۔
نہیں ، عقل نہیں مانتی۔ بس ایک بات سمجھ میں آتی ہے اوروہ یہ کہ ابلتے ہوئے گٹر والی گلیوں میں رہنے والے سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا ایسی ہی ہوتی ہے، سارا عالم ایسا ہی ہوتا ہے، سارے لوگ یوں ہی جیتے ہیںاور زندگی اسی کانام ہے ۔ دکھوں کے مارے عوام یہی سمجھتے ہیں اسی لئے بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ اگر کہیں یہ غضب ہوگیا کہ لوگ جان گئے کہ زندگی اس سے ہزار گنی بہترہوتی ہے، اگر ان پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مہذب معاشرے چین سے جیتے ہیں توکیا ہوگا۔ یہ بھی خود ہی قیاس کرلیجئے۔


.
تازہ ترین