• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحمرا میں منعقدہ سرسید قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ سرسید ہماری تحریک آزادی کے جد امجد ہیں وہ ایسے عظیم مصلح اور مدبر ہیں جنہوں نے مسلمانان ہند کو نئی شناخت دیتے ہوئے پسماندہ ماحول سے نکال کر فکری و نظری توانائی کے ساتھ تعلیمی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی زوال اور فکری اضمحلال و انتشار ہی کا جائزہ نہیں لیا بلکہ علی گڑھ کی صورت میں سائنٹیفک علمی تحریک کی بنیاد بھی رکھ دی۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان نے علی گڑھ یونیورسٹی کو اپنا نظریاتی اسلحہ خانہ ہی قرار نہیں دیا بلکہ اپنی وفات سے قبل اپنی وراثت کا ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دینے کی وصیت کی۔ افسوس قائد کی اس وصیت پر آج تک عمل نہیں ہوسکا۔
ان سے قبل ممتاز دانشور مجیب الرحمٰن شامی نے سرسید کی قومی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح قائد اعظم فادر آف نیشن ہیں اسی طرح سرسید ہم پاکستانیوں کے لئے ’’گرینڈ فادر آف دی نیشن‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سر سید نے جتنا زور انگریزی تعلیم کے حصول پر دیا ہے اتنا ہی اردو زبان کے تحفظ پر بھی دیا۔ 1857 میں جب مسلمانان ہند کو زوال آیا تو ایک کثیر طبقہ کی انگریزی کے متعلق سوچ یہ تھی کہ اس زبان کے ذریعے سے حکمران انہیں عیسائی بنانا چاہتے ہیں جبکہ ان کے برعکس ہندو کمیونٹی کی سوچ اتنی واضح تھی کہ جب کلکتہ (کولکتہ) میں سنسکرت کالج کے قیام کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سنسکرت کالج کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم انگریزی تعلیم کے حصول سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت 846ہندو گریجوایٹ کے مقابلے پر مسلمان گریجوایٹ کی تعداد صرف 20 تھی۔ انہوں نے اردو ہندو تنازع اور اس میں سرسید کی بنارس کے گورنر شیکسپیئر سے ہونے والی گفتگو پر بھی اظہار خیال کیا۔ شامی صاحب نے صدر ممنون سے مطالبہ کیا کہ آج جب محسن قوم کی دو صد سالہ تقریبات کا آغاز ہو رہاہے بہتر ہوگا کہ حکومت پاکستان سال 2017 کو ’’سرسید کا سال‘‘ قرار دے۔
سرسید بلاشبہ ہماری بہت بڑی عبقری شخصیت ہیں جیسے صدر پاکستان نے کہا کہ وہ پاکستانیوں کے جد امجد ہیں لیکن خدمات کے حوالے سے ان کی ہمہ پہلو شخصیت کے دیگر گوشوں کو بھی واضح کیا جانا چاہئے جن میں سب سے اہم قوم کے لئے ان کی فکری و شعوری بیداری کا پہلو ہے جس کا اولین زینہ وہ تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلیمی و شعوری سربلندی کے حوالے سے ہم آج بھی بہت پیچھے ہی نہیں بلکہ درست الفاظ تو یہ ہیں کہ پسماندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہم آج بھی ایک صدی قبل کی منافرتوں میں جی رہے ہیںہم میں فکری بلندی یا شعوری بالیدگی کیا آتی اپنی تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے الٹا دہشت اور جبر کی فضا ہم پر مسلط ہے۔ شدت پسندی کے مخصوص مسلح جتھوں نے ہماری پوری آزاد سوسائٹی کو اپنا یرغمالی بنا رکھا ہے انسانی حقوق اور حریت فکر جیسی اقدار سے ہم ہنوز ناآشنا ہیں ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ یہاں اسلام آباد جیسے جدید کیپٹل سٹی سے پروفیسر سلمان حیدر سمیت چار روشن خیال انسانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے لیکن ریاست پاکستان کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں، اغوا کرنے والے جو بھی لوگ ہیں وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں فکرمندی ہونی چاہئے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر متعلقہ وزیر صاحب کے اپنے بچے یوں اغوا ہوئے ہوتے تو وہ کس طرح سکون کی نیند سو سکتے تھے؟ ہمارا آئین ہی نہیں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر بھی جب آزادی اظہار کو بنیادی انسانی حقوق میں تسلیم کرتا ہے تو کسی کوہر گز یہ حق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسی بھی شہری کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالے۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو ملکی عدالتیں موجود ہیںآپ قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کریں جبر اور دہشت سے انسانی حقوق کا گلا دبانے کی اجازت کسی بھی ادارے کو نہ دیں کیونکہ اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔
اس سلسلے میں ہم یہاں پنجاب یونیورسٹی کی مثال بھی پیش کرنا چاہتے ہیں ہماری اتنی بڑی مادر علمی کے ساتھ آج کیا سلوک ہو رہا ہے؟۔سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سے ہمیں بھی اختلاف رائے ہے امریکہ کی مخالفت میں جس طرح وہ کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے سچی بات ہے ہمیں اس سے بڑا دکھ ہوتا تھا کیونکہ ہماری سوسائٹی میں امریکا دشمنی اس وقت انتہا پسندوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ علمی دلائل اپنی جگہ لیکن جہالت کو علمی دلائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں اور اس عظیم ادارے کے لئے خدمات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ایک وقت تھا کہ پنجاب یونیورسٹی انتہا پسندی کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی یہاں کسی عزت دار کی عزت محفوظ نہیں تھی پڑھے لکھے بچے بچیاں ایک گروہ کے ہاتھوں اپنی تذلیل کرواتے تھے۔ معزز طلبا و طالبات ہی نہیں یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان بھی ان کےشر سے محفوظ نہیں تھے۔ ہم نے اپنے معزز اساتذہ کو جبر اور دہشت کے ہاتھوں واش روموں میں پنا لیتے دیکھا ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی ہاسٹلز میں مجرموں کو پروٹوکول کے ساتھ ٹھہرایا جاتا رہا۔ ایک قبضہ گروپ نے جس طرح ہاسٹلز پر قبضے کرتے ہوئے عام طلبا و طالبات کا وقار کے ساتھ جینا حرام کردیا تھا کیا یہ اس مادر علمی کے شایان شان تھا کہ یہاں کتابوں کی جگہ آتشیں اسلحہ چھپا کر رکھا جائے اور جب اپنی بات منوانی ہو تو اپنے خلاف رائے رکھنے والوں پر وہ اسلحہ یوں آزمایا جائے کہ ڈگریوں کی جگہ موت کے پروانے بانٹے جائیں۔ اس لحاظ سے ہم پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے بڑی حکمت، تدبر اور جدوجہد کے بعد پنجاب یونیورسٹی کو دہشت اور جبر سے آزاد کروایا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ اب نئے وارد ہونے والے وی سی صاحب نے آتے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف تمام مقدمات واپس لئے جا رہے ہیں تاکہ انہیں یونیورسٹی میں اپنی دھاک بٹھانے کے لئے لائسنسز جاری کئے جا سکیں۔ امید ہے کہ جناب وی سی صاحب! اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہماری نئی نسلوں کے مستقل کو دائو پر لگانے سے احتراز کریںگے۔ مت بھولیے کہ تخریب کاروں کو کھلی چھٹی دینا جتنا آسان ہے انہیں قابو کرنا یا تعمیری سوچ کو پروان چڑھانا اتنا ہی مشکل ہے۔

.
تازہ ترین