• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کی یخ بستہ شام تھی، ایک بڑے ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں عمران خان، تحریک انصاف کے چنیدہ لوگ ، انرجی کے ماہرین، کاروباری شخصیات اور کچھ بیرونی نمائندے تھے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں تھا۔ تلاوت عربی میں تھی یا پھر عمران خان کا خطاب اردو میں تھا۔ کاروباری شخصیات اور انرجی کے ماہرین کا تو انگریزی سے زیادہ واسطہ رہتا ہے مگر اس روز خیبر پختونخوا کے نوجوان وزیر بھی انگریزی تقریریں کررہے تھے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ ان کے سامنے کو ئی کاغذ نہیں تھا ورنہ یہاں تو’’پرچیاں‘‘ پڑھنے کا رواج ہے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب عمران خان نے اردو میں تقریر کی۔ بھلا اس کے لئے انگریزی بولنا کون سا مسئلہ ہے مگر اس روز اس نے تقریب کے منتظمین کی خواہش کے برعکس اردو میں تقریر کی۔ ساتھ ہی رزاق دائود اور اسد عمر سے کہہ دیا کہ آپ بیرونی مہمانوں کو ترجمہ کردیں۔
عمران خان کی یہ ا چھی عادت ہے کہ وہ عام طور پر قومی لباس ہی پہنتا ہے۔ اسے اپنے سادہ لباس پر کوئی ندامت نہیں ، وہ ہمارے کئی سیاسی لیڈروں کی طرح برینڈڈ سوٹ نہیں پہنتا، میں اس کی ایک اور عادت سے واقف ہوں کہ وہ میٹنگ میں سے خاموشی سے اٹھتا ہے اور کسی کونے میں جاکے نماز کی ا دائیگی شروع کردیتا ہے۔ خیر بات ایک تقریب کی ہورہی تھی۔ اس روز عمران خان بہت خوش تھا کیونکہ خیبرپختونخوا میں سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد سرمایہ کاری کے لئے تیار تھی مثلاً انرجی سیکٹر میں اگر بیس سرمایہ کاروں کی ضرورت تھی تو اس کے لئے ستر سرمایہ کار تیار تھے۔ عمران خان اردو میں مخاطب ہوا کہ لوگوں کا خیبرپختونخوا کی گڈ گورننس پر یقین ہے، اس دن بھی عمران خان نے اپنے وزراء اور اداروں کے سربراہوں کو سختی سے منع کیا کہ کرپشن نظر نہیں آنی چاہئے چونکہ کرپشن کا خاتمہ ہمیشہ اوپر سے ہوتا ہے۔ کرپشن کو رواج بھی اوپر ہی سے دیا جاتا ہے، پاکستانیوں میں بہت قوت ہے ، انہیں بس ایسی لیڈر شپ چاہئے جو کرپٹ نہ ہو، پاکستان میں بہت کچھ ہے، صرف قیادت اہل ہونی چاہئے۔ عمران خان کی تقریر ختم ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھے مائوزے تنگ یاد کروا دیا ہے، کیونکہ مائوزے تنگ بھی انگریزی کا ماہر ہونے کے باوجود چینی بولتا تھا۔ اپنی زبان پر فخر کرتا تھا، مگر اس سلسلے میں ہم بڑے عجیب لوگ ہیں، ہماری سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ دفتری اور سرکاری زبان اردو ہوگی، مگر افسوس کہ ہمارے بابوئوں نے ابھی تک انگریز کی غلامی نہیں چھوڑی۔ ہماری حکومتوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اسی کے اسیر ہیں حالانکہ ہمیں اپنی زبان پر فخر کرنا چاہئے، ہمیں اپنے لباس پر فخر کرنا چاہئے، زندہ قوموں کا چلن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ز بان، ثقافت اور اپنے آپ پر ناز کرتی ہیں جبکہ غلامی کی اسیر قومیں اپنی زبان، ثقافت اور اپنا آپ بھول جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں تو ابھی تک جمہوریت سیدھی نہیں ہوئی، خاندانی اجارہ داریاں ہیں ابھی دیکھئے کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری خود بن گئے، بیٹے کو پیپلز پارٹی کا سربراہ بنادیا۔ فریال تالپور شعبہ خواتین کی سربراہ ہیں۔ حالات مسلم لیگ( ن) میں بھی مختلف نہیں، میاں نواز شریف پارٹی کے مرکزی سربراہ ہیں تو شہباز شریف پنجاب کے صوبائی صدر ہیں۔ کیپٹن صفدر یوتھ ونگ کے سربراہ ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں عجیب خاندانی وراثت ہے ۔ اے این پی کو دیکھ لیں، پہلے غفار خان سربراہ تھے پھر ولی خان بن گئے اور پھر نسیم ولی بن گئیں۔ اب خیر سے ولی خان کا بیٹا اسفندر یار ولی پارٹی کا سربراہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں کبھی مفتی محمود ہوتے تھے اب پچھلے کئی برسوں سے ان کے فرزندہ مولانا فضل الرحمٰن سربراہ ہیں جو ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہوتے ہیںاور اسی وقت اپوزیشن کا بھی حصہ بھی ۔آپ نے دیکھا نہیں کہ ماضی قریب میں جنرل مشرف کے دور میں خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کی حکومت تھی۔ بلوچستان میں وہ ق لیگ کے اتحادی تھے مگر مرکز میںانہوں نے اپوزیشن کو سنبھال رکھا تھا۔ اب بھی صورتحال مختلف نہیں، پارلیمنٹ کی ایک چھت تلے وہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے بیک وقت اتحادی ہیں۔ سینٹ میں ان کا اتحاد پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے جہاں رضا ربانی چیئرمین اور مولانا غفور حیدری ڈپٹی چیئرمین ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں مولانا حکومت کے اتحادی ہیں۔ ن لیگ سے ان کا اتنا پیار ہے کہ جس ہسپتال میں میاں نواز شریف یا شہباز شریف آپریشن نہیں کرواتے وہاں جانے کا ’’اتفاق‘‘ مولانا کو ہوا۔
ابھی پاناما کا ہنگامہ جاری ہے مگر سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندی شروع کردی ہے۔ آصف علی زرداری نے بیرون ملک بیٹھ کر امتیاز شیخ اور عبدالحکیم بلوچ کو پارٹی میں شامل کرلیا تھا۔
اب ان کی توجہ پنجاب کی طرف ہوئی ہے۔ انہوں نے پنجاب کی سیاست کے ایک بڑے خانوادے کے بڑے کھلاڑی فیصل صالح حیات کو عشائیے پر مدعو کرکے کافی حد تک واپسی کے لئے تیار کرلیا ہے۔ ظاہر ہے فیصل صالح حیات اور خالد کھرل کے علاوہ اور لوگ بھی شامل ہوں گے مگر سید فیصل صالح حیات کی شمولیت کے لئے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو شاہ جیونہ جانا پڑے گا جہاں ایک بڑے جلسے میں مخدوم فیصل صالح حیات اپنی شمولیت کا اعلان کریں گے۔ ابھی وہ صرف تیار ہوئے ہیں باقاعدہ شمولیت کا اعلان شاہ جیونہ ہی میں ہوگا۔ فیصل صالح حیات کی صورت میں پیپلز پارٹی کو ایک عمدہ اور تگڑا بندہ مل جائے گا۔ فیصل صالح حیات سیاست کا بہت تیز کھلاڑی ہے، وہ جب متحرک ہوتا ہے تو مخالفین کو پریشان کردیتا ہے۔ ایک زمانے میں جونیجو لیگ، پیپلز کی اتحادی تھی پنجاب میں جونیجو لیگ کی طرف سے منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ایم این اے ہونے کے باوجود فیصل صالح حیات کو پنجاب کا سینئر مشیر بنادیا۔ جونہی مخدوم فیصل صالح حیات نے اپنی سیاسی جادوگری شروع کی تو میاں منظور وٹو کی چیخیں نکل گئیں، جونیجو لیگ کی ساری قیادت اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہیدکی خدمت میں حاضر ہوئی اور ایک ہی مطالبہ کیا کہ خدا کے لئے فیصل صالح حیات کو وفاق میں بلالیں، ہمارا چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ محترمہ نے مخدوم فیصل صالح حیات کو اسلام آباد بلالیا، پھر اس کے بعد جونیجو لیگ، پیپلز پارٹی کے ایک ٹھنڈے مزاج بندے مشتاق اعوان کے ساتھ گزارا کرتی رہی۔
نئی صف بندی میں مسلم لیگ (ن) پشاور سے عمران خان کے خلاف شاہد آفریدی کو تیار کررہی ہے، مگر نئی صف بندی میں سب سیاسی پارٹیوں کو ایک بات یاد رکھنا ہوگی کہ اگلا الیکشن صاف ستھرے لوگوں کے ساتھ ہی لڑا جاسکے گا کیونکہ عمران خان کے مسلسل خطابات نے قوم کو سمجھا دیا ہے کہ کرپشن کیا ہوتی ہے اور حکمران کرپشن کیسے کرتے ہیں۔ عائشہ مسعود ملک کا شعر حسب حال ہے کہ
بے خبر تو بھی حقیقت جان جائے گا کبھو!
ایک مدت بعد تم سے جب کبھو باتیں ہوئیں


.
تازہ ترین