• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ نےایگزیکٹو آرڈرپر دستخط کر دئیے کہ پناہ کا کوئی متلاشی امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔اب میں کیا کروں ۔ میں جو رہنا چاہتا تھا۔ایک خوشبو بھری شام میں۔ایک مہکی ہوئی رات کے گیت میں۔۔ایک کھوئی ہوئی روح کے وجد میں۔اک تہجد کے جاگے ہوئے پہر میں چرچ کے گنگناتے سروں کی دعا بخش اتوار میں ۔ایک مندر کے اشلوک میں۔سینا گاگوں میں ہوتی مناجات میں۔گردوارے کی ارداس میں۔۔اور بابا فرید ایسے شاعرکی کافی میں ۔تیرہ غاروں میں ہوتی نماز وں کے بیچ۔۔
میں جورہناچاہتا تھاحسنِ نور جہاں کی لہکتی ہو ئی گرم آواز میں ۔رقصِ گوگوش کے دلربا بول میں ۔ام کلثوم کی خواب بنتی ہوئی تان میں ۔اور میڈونا کی صدیوں پہ پھیلی ہوئی تال میں ۔ایک کتھک کرتی ہوئی سونیا کی ہراک قوس میں ۔مونالیزا کے ہونٹوں پہ لکھی ہوئی نظم میں۔ رنگ جیسے پکاسو کی تجرید میں۔
چاہتا تھا کہ ہومر کی ہیلن مجھے پیار کرتی رہے۔چاہتا تھا نئے عہد نامے کی کیتھی مرے لمس میں رنگ بھرتی رہے۔چاہتا تھا کہ روزنیہ کی لمبی پلکیں مجھے خواب دیتی رہیں ۔میری خواہش مگربرسوں سے کتوں کے جبڑوں میں ہےاور شاید اگلی صدی تک وہیں رہے ۔میں نے کہا تھا۔’’آدھی رات کے پیٹ میں ہم صحرا کے بیچ میں تھے۔وہاں کوئی روڈنہیں تھا۔ہاں کئی سڑکیں تھیں ۔انسانی قدموں کے نشانات کی سڑکیں‘‘میں نے بتایا تھا کہ’’ہم اقوامِ متحدہ کے انتظار میں تھے۔ابھی بھرے ہوئے پیٹ کی دنیا۔خالی پیٹ دنیا کے لئے۔خوراک کے تھیلے بھیجے گی۔بھکاری نسلوں کے لئے من وسلویٰ کے تھیلے۔۔ہم سب کی نظریں آسمان کی طرف تھیں۔وہاں پہلا جہاز نمودار ہوا۔چہروں پر رونق آ گئی مگر جہاز نے خوراک کی بجائےآگ کے تھیلے گرائے یعنی بم۔۔پیٹ بھری دنیا نےاس مرتبہ شاید بموں کی خیرات نکالی تھی۔‘‘میں نے بتایا تھا۔’’ہر طرف لوگ مر رہے تھے ۔جیسے لوگ مرتے ہیں ۔میں نے بہت مرتے ہوئے لوگ دیکھے ہیں۔موت کے منظر کا نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا۔اس منظر کو صرف دیکھنے سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔بچ جانے والے سرپٹ بھاگ رہے تھے۔میں بھی بھا گنے والوں میں سے تھا۔بھاگتے بھاگتے ہم سوڈان سے ایتھوپیا پہنچ گئے۔بھاگنے کے اس سفر میں ۔ایک لق و دق صحرا میرا ہمسفر تھا۔موت کا صحرا۔وہی مرتے ہوئے لوگ۔سانپوں کے ڈسے ہوئے لوگ ۔بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے لوگ‘‘۔میں نے بتایا تھا۔’’اب ہم مہاجر تھےایک لامکان سے دوسرے لا مکان کی طرف سفر پر روانہ مہاجر۔مہاجر کی زندگی بھی کیا ہے۔انسان سے جانور بن جانے کا عمل ہے۔پھر ہمیں ایتھوپیا سے واپس سوڈان بھیج دیا گیا۔ہم پھر گاؤں میں اقوامِ متحدہ کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔آسمان کی طرف دیکھتے رہے۔پھر ایک طیارہ آیا۔ لیکن اس نے بھی بم برسائے۔بہت سی گائیں، بھینسیں اور آدمی ہلاک ہوئے۔آخرکار اقوامِ متحدہ والے آئے۔اور ہم میں سے کچھ لوگوں کو کینیا لے گئے۔ہم عرصہ تک اقوامِ متحدہ والوں کے پھر آنے کے انتظار میں زندہ رہے۔پھر موت بہت قریب آ گئی۔اور دہشت گرد بننے کا فیصلہ کر لیا۔سوچاکہ مرنا تو ہے ہی کیا یہ بہتر نہ ہو گاکہ پیٹ بھر ی ہوئی دنیاکےدو چار لوگ بھی ساتھ لے جاؤ۔شاید ان کا کھانا میرے جیسے لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد دے۔میں دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اس دنیا میں پہنچ گیا۔جہاں بھرے ہوئے پیٹ والے رہتے ہیں ۔میں جب پہلی بار اس دنیا میں داخل ہوا تو مجھے لگاجیسے میں کسی بادشاہ کے محل میں آ گیا ہوں۔پھر میں گرفتار ہو گیامگر پھر بھی بہت خوش ہوں کہ بادشاہ کے محل میں رہتا ہوں۔اب بادشاہ کے محل کے قید خانہ تک بھی میری رسائی ممکن نہیں رہی ۔ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دئیے ہیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ کوئی صرف جنگ مری زندگی بنانا چاہتا ہے ۔یہ میری کائناتِ بدن کوئی چھائونی نہیں ہے۔کیوں مرےدماغ کو اسلحہ خانہ بنایا جارہا تھا۔ یہ میری پانچ وقت شہادت کی بولتی انگلی ۔یہ نماز گاہ کے اسرار کھولتی انگلی ۔کیوںمشین گن کی سیہ لبلبی بنائی جارہی ہے ۔ایسی صورت میں کیسے ممکن ہے کہ دنیا پر پھر کوئی مثنوی معنوی کوئی تحریر ہو۔وقت پھر کوئی سعدی شیرازی پیدا کرسکے۔پھر کسی اقبال کی آواز آئے ۔پھر کوئی شاہ حسین دھمال ڈالے۔۔پھر کوئی وارث شاہ کے بیلے میں اپنے البیلے ساجن تلاش کرے۔پھر پیر فرید کی روہی میں کسی مٹیار کا درشن ہو۔پھر کوئی میاں محمد بخش کسی لڑکی کو شام سے پہلے گھر جانے کی تلقین کرے۔پھر کسی ٹھگوں کے ٹھگ کو ٹھگنے والے بلھے شاہ سے ملاقات ہو۔پھر کوئی سلطان باہوچنبیلی کی بوٹی کی مدح سرائی کرے۔امن کی فاختہ خاردار تاروں میں پرواز نہیں کر سکتی ۔
بھرے ہوئے پیٹ والو!آرڈرز پر دستخط کرنے سے تاریخ کے تاریک غار میں بھی ذرا سی دیر کو بلب جلا لیا کرو کہ صدیوں سے چند ناپاک سوالوں کے عوض انسانیت اپنا بدن بیچتی چلی آ رہی ہے۔انسان سسک سسک کر جی رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی کم ہی لمحہ ایسا گزراہوگاجب اس کی سسکاریوں سے ہوا مغموم نہیں ہوئی ہو گی۔یہ دہشت گردی جو تمہارےدل میں خنجر کی طرح پیوست ہو گئی ہےیہ تو ہزاروں سالوں سےلوگوں کے زندہ بدن پر چل رہی ہے۔
بادشاہوں کے لشکریوں کے پاؤں تلے کچلی ہوئی نوع انسانی کی کہانی۔دہشت گردی ہی کی کہانی ہے۔۔ہیروشیما اور ناگاساکی کی شمشان گاہ میں اڑتی ہوئی ایٹمی راکھ۔۔ہٹلر کے گیس چیمبروں میں یہودیوں کی اجتماعی موت۔فلسطین میں مرتے ہوئے معصوم بچے۔۔بغداد کی گلیوں میں بہتا ہوا خون۔۔افغانستان میں چٹختے ہوئے مظلوم پہاڑاور مقامِ صفر پر گرتی ہوئی گیارہ ستمبر کے دو ہندسوں کی سر بلند عمارتیں۔۔سب ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔دہشت گردی سے امریکہ کومحفوظ کرنے والے صدر ٹرمپ ! تم نے دنیا کو اور زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔



.
تازہ ترین