• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے تمام بد عنوان حکمران طبقوں کو نوید ہو کہ اب امریکی کمپنیاں بھی بلاخوف و خطر رشوت دے کر بیرونی ٹھیکے لے سکیں گی۔ دنیا کے مختلف مذاہب کے فرقہ پرستوں کے لئے بھی خوشخبری ہے کہ اب امریکی چرچ قانونی طور پر ٹیکس کی چھوٹ بھی لے سکتے ہیں اور سیاست میں بھی اپنے نظریات کا پرچار کر سکتے ہیں۔ بینکوں کو بھی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ اس طرح کے تمام کام کر سکتے ہیں جن سے دو ہزار آٹھ میں شدید معاشی بحران پیدا ہوا تھا۔ غرضیکہ ٹرمپ انتظامیہ ہر اس قانون کی بیخ کنی کر رہی ہے جس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد کا امریکی معاشرہ ترتیب پایا تھا۔ اب امریکہ ہر میدان میں پسماندہ معاشروں سے منفی پہلوئوں میں مقابلہ کرنے کی ٹھان چکا ہے۔
ٹرمپ جس رد انقلاب کی سربراہی کر رہے ہیں اس کی مثال امریکہ کی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ امریکی سرمایہ ان ملکوں میں منتقل ہوا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کمزور تھی، جہاں کم از کم اجرت جیسے قوانین موجود نہیں تھے اور جہاں رشوت ستانی عام تھی۔ اب ٹرمپ کے امریکہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہر میدان میں ان کم ترقی یافتہ ملکوں کا مقابلہ کرے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب امریکہ میں بھی اسی طرح کے معاشی، سیاسی اور سماجی تضادات جنم لیں گے جو بہت سے ترقی پذیر ملکوں کا خاصہ رہے ہیں۔
دنیا کی سپر پاور اور معاشی رہنما ہوتے ہوئے امریکہ نے یہ قانون منظور کر رکھا تھا کہ اس کی کمپنیاں دنیا میں رشوت ستانی میں ملوث نہیں ہو سکتیں۔ یہ اخلاقی طور پر بھی رہنما اصول تھا اور امریکی کاروباروں کو دوسرے ملکوں کے قوانین کی پابندی کروانا بھی مقصود تھا۔ اس کے پس منظر میں یہ فلسفہ بھی تھا کہ دنیا میں خوشحالی سے عالمی نظام مستحکم ہوتا ہے اور امریکہ کے لئے صارفین کی منڈیاں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں قانون کی حکمرانی قائم کروانا باقاعدہ سرمایہ داری نظام کے قیام کے لئے بھی ضروری تھا۔ یہ معاشرے زیادہ تر جاگیرداری یا قبائلی نظام میں جکڑے ہوئے تھے اور ان ملکوں میں صنعتی انقلاب کی ضرورت تھی۔ صنعتی انقلابات سے ہی خوشحالی آسکتی تھی۔
امریکہ جیسے سرمایہ دار ملکوں نے یہ راستہ روس اور چین کے سوشلزم نظاموں سے بچنے کے لئے اختیارکیا تھا۔ یعنی اگر پسماندہ ممالک سرمایہ داری نظام کو اپناتے ہوئے صنعتی انقلاب کے ذریعے خوشحال ہو جائیں تو وہ سوشلسٹ نظام کے خلاف ڈھال بن سکتے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان اس کی بہترین مثال ہیں۔ لیکن اب سوشلسٹ چیلنج ختم ہو چکا ہے، چین اور روس میں بدعنوان سرمایہ داری کا دور دورہ ہے۔ چینی سرمایہ کار پسماندہ ملکوں کے حکمران طبقات کو رشوت ستانی کے ذریعے اپنے قابو میں کر رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکی کانگریس نے امریکی کمپنیوں پر رشوت دینے کی پابندی ختم کر دی ہے تاکہ یہ کمپنیاں چینی سرمایہ کاروں کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن ایسا کرنے سے امریکہ نے نہ صرف اپنی اخلاقی برتری کو خیرباد کہہ دیا ہے بلکہ تیسری دنیا میں رشوت کا بازار گرم کر کے ان ملکوں میں صنعتی انقلابات اور عوامی خوشحالی کے امکان کو رد کردیا ہے۔ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے چین کی سطح پر آگیا ہے۔
اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ نے مذہب کے معاملے میں جس لائحہ عمل پر چلنا شروع کیا ہے وہ اسے ان پسماندہ ملکوں جیسا بنا دیں گے جن میں مذہبی منافرت، فرقہ پرستی اور عدم برداشت روز مرہ کا معمول ہیں۔ امریکی آئین کے مطابق مذہب اور سیاست کو خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کے آئین سازوں نے صدیوں پہلے بہت طویل بحث مباحثے کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ریاست کو ذاتی اعتقادات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ اسی تصور کو مضبوط کرنے کے لئے کئی دہائیوں پہلے امریکہ کے ایک سابق صدر لنڈن بی جانسن نے ایک قانون منظور کیا تھا کہ اگر چرچ ریاست سے ٹیکس کی چھوٹ کی سہولت لیتا ہے تو وہ سیاسی میدان میں سرگرم نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں چرچ نہ تو سیاسی جانبداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی لابنگ کرسکتا ہے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ نے مذہبی بنیاد پرستوں کو خوش کرنے کے لئے صدر جانسن کے قانون کو ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب چرچ ریاست سے رعایتیں لے کر بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو مذہبی منافرت، فرقہ پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے کر جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے سات مسلمان ملکوں پر ویزے کی پابندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب امریکہ روشن خیالی اور سیکولر ازم کو ترک کرکے مذہب اور ریاست کو خلط ملط کرنے جا رہا ہے۔ گویا کہ صدر ٹرمپ امریکہ کو کئی صدیوں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدرٹرمپ امریکہ کے مالیاتی نظام کو بھی لاقانونیت کا شکار کرکے معاشی بحران کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کے زمانے میں سخت معاشی بحران سے نپٹنے کے لئے ایسے قوانین مرتب کئے گئےتھے جن کا مطلب صارفین کے حقوق کی حفاظت اور مستقبل میں مالیاتی اداروں کی سٹے بازی کے رجحان کو روکنا تھا۔ امریکہ کے روشن خیال حلقے سمجھتے ہیں کہ وال اسٹریٹ یا مالیاتی اداروں کو استحصال کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور ان پر مزید پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ الٹی گنگا بہاتے ہوئے موجودہ پابندیوں کو بھی ختم کر رہی ہے۔ اب بینکاری اور مالیاتی اداروں کے بارے میں قوانین کے کمزور ہونے سے امریکہ کی مالی منڈیاں کسی وقت بھی بحران کا شکار ہو سکتی ہیں جس سے عالمی بحران جنم لے سکتا ہے۔ اب امریکہ میں مالیاتی اداروں پر لگائے گئے قوانین ایسے ہی ہوں گے جیسے پاکستان جیسے ممالک میں ہیں۔ یہ قوانین نہ تو صارفین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور نہ ہی عوام کے پیسے سے بینکوں کی سٹہ بازی پر کوئی پابندی لگاتے ہیں۔
اوپر دی گئی مثالوں سے یہ ثابت کرنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ہر شعبے میں ایسی تبدیلیاں کر رہی ہے کہ جس سے امریکہ عام پسماندہ سماجوں کی مانند ہو جائے گا۔ امریکہ ایسا ملک بننے جا رہا ہے جس میں سرمایہ دار اور دولت مندوں پر کوئی قدغن نہیں ہوگی۔ امریکہ میں حکمران طبقوں کے اتحادی چرچ کو بھی سیاست میں کھل کھیلنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اس لئے اب امریکہ میں غیر منصفانہ نظام ترقی پذیر ملکوں کی مانند ہوگا۔ امریکہ میں مذہبی منافرت اور عدم برداشت کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔



.
تازہ ترین