• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معراج محمد خان جیسے دو چار سیاستدانوں کو چھوڑ کر باقی کے تمام سیاستدان، پھر وہ چاہے برسراقتدار ہوں یا اقتدار سے محروم ہوں سب کے سب چوہدری، وڈیرے، خان، سردار اور پیر سائیں ہوتے ہیں… ان سب کے اپنے اپنے قبیلے ہوتے ہیں، مزارع ہوتے ہیں، کسان، دہقان اور مزدور ہوتے ہیں… وہ ان کا ووٹ بینک ہوتے ہیں… وہ ان پر راج کرتے ہیں… انتخابات کے دوران ان کے ووٹوں کے بل بوتے پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں جاکر بیٹھتے ہیں… مشیر بنتے ہیں… اور پاکستان پر راج کرتے ہیں… پاکستانیوں کو اپنے مزدور، کسان اور دہقانوں کی طرح چلاتے ہیں… ستر برس پہلے جب پاکستانیوں کی تعداد دو کروڑ تھی، تب سے لیکراب تک جب پاکستانیوں کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے، روتے پیٹتے چلاتے رہتے ہیں کہ ہم سب سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں، پیر سائیوں کے مزدور، کسان اور دہقان نہیں ہیں… آپ ہمارے ساتھ ایسا برتائو مت کریں جیسا برتائو آپ اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں… حکومتیں ایسے نہیں چلتیں جس طرح آپ اپنے قبیلے چلاتے ہیں… ہم آپ کے جرگوں اور جرگوں میں دیئے گئے فیصلوں کو قبول نہیں کرتے...جرگے اس دور کی یاد تازہ کرتے ہیں جب معاشرے میں نظم و ضبط رکھنے کیلئے پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ نہیں ہوتے تھے… آئین نہیں ہوتے تھے… عدالتیں نہیں ہوتی تھیں… تب سردار سائیں کا بولا ہوا لفظ قانونی حیثیت رکھتا تھا… پیر سائیں کا فیصلہ پتھر کی لکیر بن جاتا تھا۔
پاکستان کو چونکہ حکومتوں میں بیٹھے ہوئے سردار، چوہدری، وڈیرے، خان اور پیرسائیں چلاتے ہیں، اس لئے پاکستان میں دو متوازی قانونی نظام مروج ہیں… ایک وہ قانون جو چھوٹی عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک رائج ہے… دوسرا سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں اور پیر سائیوں کا جرگہ نظام… جرگوں میں مقدموں کے فیصلے چند دنوں میں سنا دیئے جاتے ہیں… کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مقدمہ کا فیصلہ چند گھنٹوں میں سنا دیا جاتا ہے… اس کے برعکس عدالتوں میں چلنے والے مقدمات برسہا برس چلتے رہتے ہیں، نسل درنسل پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں… پڑ دادائوں کے مقدمے پڑپوتوں کو بھگتنے پڑتے ہیں… مگر بیشمار خامیوں کے باوجود جرگے آئینی عدالتوں کا متبادل نہیں ہوسکتے… دونوں نظاموں میں ایک بنیادی اور واضح فرق ہے، آئینی عدالتوں کے جج صاحبان تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور جرگے چلانے والے ناخواندہ یعنی ان پڑھ ہوتے ہیں… عدالتوں کے فیصلے آئینی ہوتے ہیں… اور جرگوں کے فیصلے صوابدیدی ہوتے ہیں، شخصی ہوتے ہیں… سرداروں اور پیر سائیوں کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں… عدالتی نظام اور جرگوں میں آپ کو کوئی مماثلت نظر آتی ہے؟
عدالتی نظام میں تمام تر کوتاہیوں کے باوجود لوگ جرگوں کو فرسودہ نظام سمجھتے ہیں… لوگوں نے جرگوں کو مسترد کردیا ہے… جرگوں کیخلاف لوگوں کا ردعمل غورطلب ہے… جرگوں کو فرسودہ سمجھنے اور کہنے والے اپنے آپ کو سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں اور پیروں کی غلامی سے آزاد کرنا چاہتے ہیں… گلے میں پڑا ہوا طوق اتار کر پھینکنا چاہتے ہیں… وہ اب مزید ذلت کی زندگی گزارنا نہیں چاہتے… اس بغاوت کی بھنک اسمبلی میں بیٹھے ہوئے بلکہ براجمان سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں، پیروں کے کان میںپڑ چکی ہے… اس سے پہلے کہ لوگ جرگوں کیخلاف بغاوت کردیں پاکستان چلانے والے پیروں، سرداروں، چوہدریوں اور وڈیروں نے جرگوں کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے… اس فیصلے سے ایک بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے… پاکستان پر راج کرنے والے سردار مروجہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے… ستر برس سے پیر سائیں، سردار سائیں، وڈیرے سائیں اور چوہدری سائیں پاکستان پر راج کر رہے ہیں… انہوں نے کبھی نہیں چاہا تھا اور کبھی نہیں چاہا ہے کہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے… جرگوں کو تقویت دینے کیلئے انہوں نے عدالتی نظام کو پس پشت ڈال دیا ہے… ستر برسوں کے دوران پاکستان کی آبادی دو کروڑ سے بڑھ کر بیس کروڑ ہوگئی ہے… کسی شعبہ میں بھی مع عدالتی اداروں کے حکومتوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر بہتری لانے کی کوشش نہیں کی… بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے بڑھنے کے بجائے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال، فلاحی ادارے، تکنیکی مراکز کی تعداد گھٹنے لگی… بیس کروڑ عوام کے قانونی مسائل حل کرنے کیلئے عدالتوں کی تعداد بہت کم ہے… ناہونے کے برابر ہے… طبی حوالوں سے کہتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر دس ہزار مریضوں کا علاج نہیں کرسکتا اسی طرح ایک جج دس ہزار مقدمات دس روز میں نمٹا نہیں سکتا… پاکستان پر راج کرنے والے سرداروں، پیر سائیوں، چوہدریوں اور وڈیروں نے پچھلے ستر برسوں سے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ لوگ عدالتی نظام سے بیزار اور بددل ہوجائیں اور جرگائی نظام کو سراہیں۔ان کے اثرو رسوخ اور تابعداری سے نکل نہ پائیں… تاحیات ان کی رعایا بن کر رہیں… مگر یہ ہو نہ سکا… دیہی پاکستان کے لوگ جرگوں کے فرسودہ فیصلوں سے بیزار ہوچکے ہیں… وہ پیروں، سرداروں، وڈیروں اور چوہدریوں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں… اس ذہنی سوچ اور شعور نے پاکستان پر راج کرنے والوں کو ہلاکر رکھ دیاہے۔ راجائوں نے پرجا پر تسلط قائم رکھنے کیلئے جرگوں کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ایک عورت نے اپنے شوہر کو فاحشائوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے دیکھ لیا… وہ کلہاڑی اٹھا لائی اور اپنے شوہر کو وہیں کے وہیں کلہاڑیوں کے پے درپے وار کرکے ڈھیر کردیا… وہ خون آلود کلہاڑی لیکر سردار سائیں کے جرگے میں پیش ہوئی… ہمارے معاشرے میں غیرت صرف مرد کو آتی ہے… عورت کو نہیں… سردار سائیں متذبذب ہے… اسے دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے… اس کا ذہن قبول نہیں کرتا کہ ایک عورت کو غیرت بھی آسکتی ہے… غیرت صرف مرد کو آتی ہے اور وہ بیوی کو کاری کہہ کر قتل کرسکتا ہے… ایک عورت اپنے عیاش شوہر کو کارو جان کر قتل نہیں کرسکتی… اب دیکھنا یہ ہے کہ جرگوں کو آئینی اور قانونی تحفظ ملنے کے بعد سردار سائیں عورت کے حق میں کیا فیصلہ دیتے ہیں۔

.
تازہ ترین