• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی حکومت کی ضرورت فکر فردا … راجہ اکبردادخان

2013 کے عام انتخابات کی شفافیت کے معاملات آج تک طے نہیں ہوسکے، پیپلزپارٹی سمیت 25دوسری جماعتیں بھی ان انتخابات پر اعتراضات اٹھاچکی ہیں، طویل دھرنے بھی ہوچکے ہیں اور ایک کمیشن بھی اپنی سفارشات پیش کرچکا ہے۔ عمران خان کے اس موضوع سے جڑے کئی شہروں میں بڑے احتجاجی جلسےاپنی جگہ، اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور اسمبلی ارکان کی بھاری اکثریت کی بنا پر حکومت چل رہی ہے، انہی ساڑھے تین سال میں شدت پسندوں اور ملک دشمن عناصر سے بھرپور لڑائیاں بھی جاری رہیں، ضرب عزب کے نتیجہ میں قوم کوبے پناہ اموات اور مالی نقصانات سے بھی نمٹنا پڑا۔ ملک وقوم کی خاطر افواج پاکستان اور نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے دو سال قبل مشکل سیاسی ماحول میں بھی جماعتیں حکومت کے نیشنل ایکشن پلان جس سے ملکی سیکورٹی بہتر ہوجانے کی توقعات تھیں، پر متفق ہوگئیں اس کے بعد فطری طورپر اس 25نکاتی پلان پر عمل حکومت ہی کو کرنا تھا، پلان کے ایسے حصے جن کو رینجرز نے نمٹانا تھا، جن میں کراچی کے امن کی بحالی مرکزی نکتہ تھا، بہت حد تک مکمل کرلیے گئے مگر اندرون پنجاب دہشت گردوں کی پناہ گاہوں، فرقہ پرستی اور تشدد کی درس گاہوں اور میٹریل تک ایکشن پلان کو رسائی نہ مل سکی، جب تک انتہا پسند مائنڈ سیٹ کو حقیقی پرامن اسلامی روح  میں  ڈھالا نہیں جاتا معاشرہ انتہاپسندی سے جڑی پُرتشدد کارروائیوں سے آزاد نہیں ہوسکے گا۔ نیشنل ایکشن پلان جس میں فوجی عدالتیں بھی دو سال کے لئے بنیں ہم نہ تو اپنے پراسیکیوشن نظام کو ٹھوس بنا سکے اور نہ ہی مدرسوں کے تعلیمی نظام کو کسی ٹھوس انداز میںبدل سکے اور نہ ہی تشدد اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے دیگر اقدامات ٓاٹھاسکے، ہم سب گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں کچھ کو پنجاب حکومت کی سرپرستی ہے تو کچھ کو سندھ والوں نے کور دے رکھا ہے، جب سیاسی حکومتیں ہی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہوئے ملکی سالمیت کے مفاد میں اقدامات کرنے سے گریز کرنا شروع کردیں تو ایسے سنگین ایشوز پر قابو پا لینا محال ہوجاتا ہے، آج کے امن وامان کےحالات میں حکمرانوں کے یہ نعرے بڑی حد تک کھوکھلے نظر آتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے، یا ہم ان اہم معاملات سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟۔ اتنا بالکل واضح ہے کہ ملک نہ تو ایک مضبوط معیشت کی طرح چل رہا ہے نہ ہی ایک مضبوط اکائی کے طورپر دنیا کے سامنے کام کررہا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو ایک مضبوط ملک جس کا دنیا میں ایک نام ہو، منوارہا ہے ایسا کیوں ہورہا ہے؟ قومی قیادت کو اس بڑے سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا، ہماری سیاسی اور جغرافیائی حدود بھی دبائو کا شکار ہیں، ہمارے تمام ہمسائے بھی خطرناک دشمنوں میں بدل چکے ہیں، کشمیر پر دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں یہ مختصر حقیقت نامہ ریاست پاکستان کے لئے نہایت مشکل وقتوں کا پیامبر ہے جن سے نمٹنے کے لئے بڑے اداروں (افواج پاکستان، اعلیٰ عدلیہ اور حکومت) کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، پانامہ کیس دوسروں کے لئے درد سر بنے گا یا نہیں، مگر حکومت کو اچھی خبر کی توقع بالکل نہیں کرنی چاہئے، جتنا بھی نقصان ہوگا حکومت کا ہی ہوگا، اگلے انتخابات میں بھی زیادہ وقت نہیں، پھر درمیان میں عبوری حکومتیں بھی بننی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے طاقتور دشمنوں نے ہمیں ایک سے زیادہ حوالوں سے نرغے میں لے رکھا ہے، قیادتیں اس نرغے سے نکلنے کی تدابیر سوچیں، دہشت گردی کی نئی لہر کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے، چاروں اکائیوں کےدرمیان ذہنی دوریاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں، ایک صوبہ کے وزیراعلیٰ کے قافلے پر دوسرے صوبہ کی پولیس فائرنگ، اہم سلامتی اور قومی امور پر تمام صوبوں سے مشاورت کا نہ ہونا اور مرکزی حکومت کا ’’مرکزی‘‘ نظر نہ آنا، ایسے معاملات ہیں جن سے ملکی استحکام اور تشخص مجروح ہورہا ہے جو قومی مفاد کے خلاف ہے، حکومت کہہ سکتی ہے اس کو احتجاجی سیاست سے نمٹنے کے بیشتر گرُ ازبر یاد ہوچکے ہیں، پنجاب اور مرکز میں اس کی مضبوط گرفت ہے، یہ پاناما کےکسی دھچکہ سے نمٹنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے، رہ گئی بات دہشت گردی کی تو وہ اس سے بھی نمٹ لیں گے، باقی سب کچھ ملکی سیاست کا حصہ ہے، وزیراعظم محترم پاناما سے فارغ ہوکر بین الاقوامی معاملات کو سنبھال لیں گے، ہرکوئی 2018ء تک انتظارکرے، (ن)والوں کی یہ وضاحت ملک کے ایک بڑے طبقہ کیلئے قابل قبول نہ ہوگی، وجہ؟ ملک کے استحکام اور سلامتی کو شدید خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے کسی کو وزیرخارجہ بنادینا حل نہیںہے اور نہ ہی کچھ نہ کرنے کے فیصلے کر لینا حل ہے، ہم نے سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کو ختم کرنا ہے، بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتکاری کو استعمال کرتےہوئے اپنے اردگرد کے دشمنوں کو پیچھے ہٹانا ہے اور اپنا باعزت مقام بحال کرنا ہے۔ جس کے لئے ایک مضبوط قومی ٹیم کی ضرورت ہے جسے حالات کی سنگینی کا ادراک ہو۔ حکومت ان ساڑھے تین سالوںمیں ان بڑے قومی چیلنجز سے نہیں نمٹ سکی ہے، وزیراعظم اور ان کی حکومت پاکستان کے بہی خواہ ہیں، مگر بعض اوقات زیادہ بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی سطح کے اعلیٰ کردار ذہنوں سے مستفید ہونا قومی ضرورت بن جاتی ہے، جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف کے حالیہ ریمارکس نے بھی واضع کردیا کہ اسمبلی میں کس کردار کے لوگوں کو پہنچنا چاہئے، تب ہی کہیں متوسط اور نچلے طبقہ سے باکردار لوگ قومی سیاست کا حصہ بن سکیں گے اور اسی سے صاف وشفاف حکومتیں بھی بن سکیں گی اور اسی طرح کے معاشرے بھی ابھر سکیں گے، اس دورانیہ میں ایسے اہم معاملات پر غورکیلئے وقت بھی مل جائے گا، اگرایسی حکومت جلد بن جاتی ہے تو اسے کام کرنے کیلئے کچھ وقت اس حکومت کو بھی مل جائے گا اور ایک معقول مدت کیلئے ایسی حکومت کا وجود بیشتر سیاسی جماعتوں کیلئے بھی قابل قبول ہوسکتا ہے، ویسے بھی آج کل حکومت فیتے کاٹنے میں مصروف ہے۔ مذکورہ اہداف کے حصول کیلئے قومی حکومت اگر بنیادیں رکھ دیتی ہے جس پر اگلی حکومت عمارتیں کھڑی کرسکے تو یہ سیاسی سٹرکچر کا قوم پر ایک بڑا احسان ہوگا۔ جسے عوام الناس کی بھاری اکثریت نہایت محبت کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کا حصہ بنالے گی۔ ریاست پاکستان کو بڑی عینک سے دیکھنے والوں کی ضرورت ہے اور یقیناً قومی قیادت کے تمام جُز ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے خواب سے جڑے ہوئے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔



.
تازہ ترین