• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اُس وقت جہاز میں تھا جب سہون شریف میں بم دھماکہ ہوا ۔بے نظیر بھٹوایئر پورٹ اسلام آباد پر اترتے ہی جس تکلیف دہ خبر نے میرا استقبال کیا وہ یہی تھی ۔جنرل راحیل شریف بہت شدت سےیاد آئے ۔اسلام آباد میں افواج ِ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی احباب سے ملاقات ہوئی ۔وہ اپنے موجودہ چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے حوالے سے بڑے پُر اعتماد ہیں ۔رات ڈھلنےتک جب مجھے ایک سو کے قریب دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تولگا کہ فوج کا اپنے چیف پر اعتماد درست ہے اورجب خبر آئی کہ پاکستان نے افغان سرحد کےاس پار بمباری کرکے دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ کر دئیے ہیں تو میں نے دل ہی دل میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو سیلوٹ کیا ۔یہ اِس پاکستانی کا پہلاسیلوٹ کسی آرمی چیف کےلئے تھا۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان کا یہ حکم سن کر کہ دہشت گرد ملک کے اندر ہوں یا بیرون ملک انہیں ڈھونڈڈھونڈ کر ماردیا جائے ۔میرے دل سے پہلی بار ان کےلئے بھی دعا نکلی ۔
میرا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا دائرہ کار اوربڑھانا چاہئے ۔ صرف افغانستان ہی نہیں دنیا کے جس خطے میں انسان دشمن دہشت گرد موجود ہیں۔وہاںپاکستانی افواج کوکارروائی کرنی چاہئے ۔سیہون شریف پر دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے ۔سو یہ غلط نہ ہوگاکہ ہم داعش کے خلاف روس کے ساتھ مل کرعراق اور شام میں بھی کارروائی کریں ۔اس کارروائی سے پاکستان اور زیادہ مضبوط ہوگامیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ جو فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت کا قصہ ہے یہ درست نہیں اور نہ ہی فوجی عدالتوں کے خلاف اپیل ہونی چاہئے۔فوج، حالتِ جنگ میں ہے اور جنگ میں ہر فوجی خود جج بھی ہوتا ہے ، وکیل بھی اور جلاد بھی ۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اگردشمن کےانسانی حقوق دیکھنے شروع کر دئیے تو دشمن اُسے مار دے گا ۔سو ہر فوجی عدالت محاذ پر پہنچتے ہی لگ جاتی ہے۔وہی محاذ جنگ ہی فوجی کاکورٹ روم ہوتاہے اور دشمن کو لٹکانے والاپھانسی گھاٹ بھی ۔دوسرا یہ جو سہولت کار کی اصطلاح ہے یہ بھی درست نہیں ۔جنگ میں دشمن کا سہولت کار اسی طرح دشمن ہوتا ہے ۔جیسا وار کرنے والا دشمن ،جنگ میں یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص کو یہ سوچ کر گولی نہ ماری جائے کہ یہ آدمی توصرف راستے کی نشان دہی کرنےوالا ہے ۔جنگ میں جیسے دشمن موت کاحقدار ۔بالکل اسی طرح اسکا سہولت کار بھی۔
یہ بات تو بہت بری ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کی اس نئی لہر سے پانامہ کیس پر عوام کی توجہ کم ہوئی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ سپریم کورٹ میں حکومتی معاملات کچھ زیادہ بہتر نہیں ۔ اتفاق سے کل مجھے اسلام آباد سیکرٹریٹ جانا پڑا ۔پہلے میں ڈپارٹمنٹ آف پلاننگ ڈویژن میں گیا تو مجھے وہاں بہت سے نون لیگ کے ایم این ایزدکھائی دئیے ۔میں نے یہ سوچ کر صرف ِ نظر کیا کہ ممکن ہے یہاں کہیں حکومتی پارٹی کی کوئی میٹنگ ہو ۔اس کے بعدمیں اپنےایک اوردوست سے ملنے فنائس منسٹری میں گیا تو وہاں پلاننگ ڈویژن سے زیادہ نون لیگی ایم این ایز موجود تھے ۔میں چونک گیا اور میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یہ نون لیگی ایم این ایز نے سیکرٹریٹ پر دھاوا کیوں بول رکھا ہے تو اس نے ہنستے ہنستے کہا ’’جب منزل تک پہنچنے کےلئے وقت کم رہ جائے تو مسافر دوڑنے لگتے ہیں ۔ ‘‘ میں اُس کی بات نہیں سمجھ سکا تھا سو میں نےاسے وضاحت کےلئے کہا تو اس نے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے حکم دیا ہے کہ فوری طور پرنون لیگ کے تمام ایم این ایز کے لئے مختص فنڈ زجاری کئے جائیں ۔حکومت یہ فنڈز مختلف پروجیکٹ کی مد میں ایم این ایز کو دیتی ہے ۔فنڈلینے کےلئے ضروری ہے کہ وہ جس پروجیکٹ کی مدمیں دیا جائے وہ پلاننگ ڈویژن کا منظور شدہ ہو ۔سو تمام ایم این ایز اپنے مختلف پروجیکٹ کی پہلے پلاننگ ڈویژن سے اپروول لیتے ہیں اور پھر فنائس سے ان پروجیکٹس کےلئے فنڈزجاری کراتے ہیں ۔ان دنوں یہاں دن رات یہی کام جاری ہے ۔ایک دن پروجیکٹ جمع ہوتا ہے دوسرے دن اس کی اپروول ہوجاتی ہے اور تیسرے دن فنائس والے اس کےلئے فنڈز جاری کر دیتے ہیں۔وہ کام جو پہلے مہینوں میں بھی نہیں ہوتے تھے ان دنوں ، دنوں میں ہو رہے ہیں ۔میرے استفسار کرنے پر اس نے بتایا کہ کسی پروجیکٹ کو مکمل طورپردیکھنا کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں ، یہ جو پی سی ون بنا کر ایم این ایز لائے ہیں کیایہ تمام قانونی تقاضے پورا کرتے ہیں یا نہیں۔اس کےلئے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں یہ ایک دن کا کام نہیں اور اس کے لئے فنڈز ریلیز کر نے کا بھی ایک طریقہ کارہے۔یہ جو جلدی جلدی کا کام ہوتا ہے اس میں بہت سی غلطیاںرہ جاتی ہیں جن کے سبب حکومت جانے کے بعد لوگوں کونیب کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں ۔میں نے اس سے دو تین مرتبہ پوچھا کہ اتنی جلدی کی اچانک ضرورت کیوں پڑ گئی مگر اس نے میرے اِس سوال کا کوئی جواب دئیے بغیر مجھ سے پانامہ کیس کے متعلق پوچھنا شروع کردیا ۔
اطلاعات کے مطابق یہ فنڈز صرف نون لیگ سے تعلق رکھنے والوں کوجاری کئے جارہے ہیں اپوزیشن کےکسی ممبر اسمبلی کو بجز قائد حزب ِ اختلاف یہ فنڈ نہیں دیا جارہا ۔مجھے یادہے کہ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم ہوتے تھے انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ تمام اپوزیشن کے ممبران پارلیمنٹ کےلئے فنڈ جاری کئے تھے حتی کہ حنیف عباسی جو ان کا بدترین مخالف تھا اس کے فنڈ میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی بلکہ کہا تھا کہ ان کاجوحق ہے وہ انہیں ضرور دیا جائے ۔
ان دنوں وزیر اعظم نواز شریف مختلف پروجیکٹس کے افتتاح کررہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اسلام آبادکے نئے ائیرپورٹ کا بھی افتتاح کریں سو حکم دے دیا گیا ہے کہ جتنے جلدی ممکن ہو سکے اسے مکمل کیا جائے۔ ایئرپورٹ بنانے والوں نے چودہ اگست کی تاریخ دی ہے کہ اس سے پہلے افتتاح ممکن نہیں اور چودہ اگست آنے میں ابھی تقریباً چھ ماہ باقی ہیں جہاں تک پانامہ کیس کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ کب، کیا اور کس طرح کا، یہ اللہ کی ذات ہی جانتی ہے یا کسی حد تک جج صاحبان جانتے ہوں گے۔ اس پر کوئی حتمی تبصرہ ممکن نہیں۔ اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور یہ کام روزانہ بڑی شد و مد کے ساتھ فواد چوہدری، نعیم الحق، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور محترمہ قائم مقام وزیر اطلاعات وغیرہ کرتے رہتے ہیں میرے خیال میں تو جب تک مارچ میں سینیٹر زبنانے کا کام مکمل نہیں ہوجاتا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ آس کے اس کے بعد ممکن ہے وزیراعظم نواز شریف خود نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔



.
تازہ ترین