• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی، ہماری دھند آلود سوچ اور غلام عباس کا جواری

غلام عباس کا افسانہ ’جواری‘ اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ پولیس نے جوئے کے اڈے پر چھاپہ مار کر دس جواری پکڑ لئے ہیں۔ پکڑے جانے والوں میں بیٹھک چلانے والا شخص ’نکو‘ بھی شامل ہے۔ نکو نے ان جواریوں کو یقین دلا رکھا تھا کہ پولیس سے اس کے گہرے مراسم ہیں۔ حوالات میں گرفتار افراد چاہتے ہیں کہ ’نکو‘ اب اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ نکو صاحب فرماتے ہیں ۔ ’آپ لوگ بالکل بھی فکر نہ کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا بھی بال بیکا نہ ہو گا… اسے تو، کیا کہنا چاہئے، مذاق سمجھو، مذاق‘۔ اس دوران میں داروغہ صاحب تھانیدار کا پیغام لاتے ہیں کہ سب جواری ایک دوسرے کو باری باری دس دس جوتے لگائیں۔ حکم حاکم مرگ مفاجات…یہ سفید پوش لوگ مجبور ہو کر اس ذلت سے گزرتے ہیں۔ افسانے کی آخری چار سطریں چشم کشا ہیں۔ ’یہ لوگ تھانے سے یوں نکلے جیسے اپنے کسی بڑے ہی عزیز قریبی رشتہ دار کو دفن کر کے قبرستان سے نکلے ہوں۔ تھانے سے نکل کر کوئی سو گز تک تو وہ چپ چاپ گردنیں ڈالے چلا کیے۔اس کے بعد ’نکو‘ نے یکبارگی زور کا قہقہہ لگایا۔ اتنے زور کا کہ وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا۔’’ کیوں دیکھا !۔ اس نے کہا۔ ’’ نہ چالان ، نہ مقدمہ، نہ قید، نہ جرمانہ۔ میں نہ کہتا تھا اسے مذاق ہی سمجھو!‘۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ہماری حالت اس افسانے کے ’گرفتاران بلا‘ جیسی ہے۔ ہماری مشکلات کے ذمہ دار عناصر گزشتہ پندرہ برس سے پہلو بدل بدل کر ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ معاملہ پوری طرح سے ہاتھ میں ہے۔ ادھر زمینی صورت حال یہ ہے کہ ہم پر چہار جانب سے یورش ہو رہی ہے۔ دہشت گردی کے سینکڑوں واقعات میں ہزاروں شہری اور سرکاری اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہماری فوج مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ خزانے پر فوجی کارروائی کے اخراجات ایسا نازک معاملہ ہیں کہ ہم اس پر دوٹوک بحث کا یارا بھی نہیں رکھتے۔ لاکھوں افراد معذور ہو چکے ہیں۔کاروباری مراکز ، رہائشی علاقے ، سرکاری عمارات ، عبادت گاہیں ، درس گاہیں اور تفریحی مقامات نشانہ بنائے گئے ہیں۔قوم کو پہنچنے والے معاشی نقصان کا حقیقی تخمینہ ممکن ہی نہیں۔ کسی عمارت میں ہونے والے نقصان کا حجم تو بتایا جا سکتا ہے ۔ ایک شہری کی جان کا نقصان اعداد و شمار میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لاکھوں خاندانوں کا معیار زندگی آنے والے کئی عشروں کے لئے تباہ ہو گیا ہے۔ دنیا میں ہماری تھڑی تھڑی ہو رہی ہے۔ ٹیلی وژن اور اخبارات میں اشتہار سے تو قوم کا امیج بہتر نہیں کیا جا سکتا ۔ قوم کے امیج کا امتحان یہ ہے کہ ہم اعتماد کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ پکڑ کر دنیا کے کسی ہوائی اڈے پر اتریں گے۔ جنرل اسٹور میں رکھی پاکستانی مصنوعات دیکھ کر خریدار جھرجھری نہیں لے گا۔ہمارا سفارت کار اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے اس مخمصے میں نہیں ہو گا کہ میز کے دوسری طرف بیٹھا ہوا وفد ہمارا اعتبار کرنے پر تیار ہی نہیں۔ ہم نے اس لڑائی میں بلاشبہ بہت نقصان اٹھایا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بیٹھک چلانے والا نکو صاحب ہمیں مسلسل بیوقوف بنا رہا ہے۔ ہمیں اس کی چرب زبانی کا تجزیہ کرنا چاہئے۔
ایک ہفتے میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے بعد ہم نے عذر خواہی کی زنبیل سے کچھ نئے کبوتر برآمد کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے قومی سلامتی کے اداروں میں مناسب تعاون موجود نہیں۔ یہ ایک انتظامی پہلو ہو سکتا ہے اور انتظامی معاملات میں بہتر ی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس دلیل کی آڑ میں دہشت گردی کے پس پشت کارفرما سیاسی سوالات سے نظریں چرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی سڑک پر سی سی ٹی وی کیمرہ خراب ہونے سے یا کسی اہلکار کی ممکنہ غفلت سے دہشت گردی کی حقیقی ذمہ داری طے نہیں ہوتی۔ دہشت گردی میں اصل جرم ہتھیار اور بارود لے کر پرامن انسانوں پر حملہ آور ہونے والے سے سرزد ہوا ہے۔ دہشت گردی کرنے والے شخص کو سمجھایا گیا ہے کہ مذہب کے نام پہ دوسرے انسانوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری ریاست نے مذہب اور سیاست کی حدود کو ایک مدت سے گڈمڈ کر رکھا ہے۔ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ اگر ہم مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں تو ہم پر مذہب کی مخالفت کا الزام لگایا جائے گا۔ہمیں جاننا چاہئے کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ عقیدے کی آزادی تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ دہشت گرد عقیدے کے نام پر تشدد کر کے مذہب کی توہین کرتا ہے۔ یہ بات 2001 ء کے بعد بار بار دہرائی گئی لیکن کچھ عناصر ہمیں یقین دلاتے رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کی مخالفت کا ایک حربہ ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ظہور کے بعد یہ معلوم کرنا مشکل نہیں رہا کہ باراک اوباما اور انجیلا مرکل کے جمہوری مؤقف میں کیا خوبیاں تھیں۔ ہمیں مذہب اور دہشت گردی میں حدفاصل قائم کرنے سے گریزاں تھے، ہم عقیدے اور ثقافت کے نام پر دہشت گردوں سے لاتعلقی اختیار کرنے میں ہچکچا رہے تھے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ دہشت گردوں کی عذر خواہی کے بیشتر مفروضات عملی طور پر پٹ چکے ہیں۔ ہتھیار کی مدد سے سیاسی مؤقف کو آگے بڑھانے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی حقوق اور حق خود ارادیت کے نام پر ہتھیار اٹھانے کی حمایت بالواسطہ طور پر دہشت گردی کو سہارا دیتی ہے۔ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے قانونی اور اخلاقی پہلوئوں پر مباحثے کا یہ وقت نہیں لیکن اگر افغانستان کے اندر کسی نے اٹھ کے یہ کہہ دیا کہ ملا فضل اللہ ، عمر خراسانی وغیرہ نے افغانستان کی زمین پر دہشت گردی نہیں کی تو ہمارے پاس کیا جواب ہو گا۔یہ امر طے ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والی قوم اور ریاست کو ایک اعلیٰ اخلاقی بیانئے سے مدد لینا ہو گی۔ دہشت گردی کے مقابلے میں ریاست کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ محض نفسیاتی پیغام ہو سکتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات ہمارے ریاستی بیانئے پر بنیادی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع فیصلہ سازوں کا اختیار ہے لیکن اس ہنگامی بندوبست کی مدت بڑھا نے سے بھی قانون نافذ کرنے والے باقاعدہ اداروں کی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت ختم نہیں ہو جاتی۔
بلاول بھٹو ، چوہدری نثار اور طلال چوہدری صاحب کی بیان بازی نامناسب ہے۔ دہشت گردی کا قضیہ معمول کے سیاسی اختلافات سے بلند تر اصولوں کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے شہریوں کا خون لاہور کے مال روڈ پر بہے یا سیہون شریف میں بہایا جائے ، ہمارے لئے قومی چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ واقعات چند برس پہلے پیش آتے تو ہم نے ریمنڈ ڈیوس اور بلیک واٹر کا منتر دہرایا ہوتا ۔ آج کل ہم دہشت گردوں کی افغان شہریت ثابت کرنے کے درپے ہیں ۔ جاننا چاہئے کہ دہشت گردی کی بیٹھک چلانے والا ہمارے سیاسی مکالمے میں موجود ہے۔ ہم پر ہونے والے ہر حملے کے جواب میں یہ شخص کہتا ہے کہ ’واللہ یہ تو محض مذاق ہے۔ سستے میں چھوٹ لئے۔ نکالو تاش کے پتے اور پھر سے پھینٹنا شروع کرو‘۔

.
تازہ ترین