• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹائمز اسکوائر ،چیلسی کلنٹن اور مسلم ہمدرد موجود لیکن ؟

زندگی کے 40سال سے زائد نیویارک میں بسر کرتے ہوئے مشاہدہ کیلئے بہت کچھ ملا۔ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر یعنی نائن الیون ہوا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے اکلوتے بیٹے کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی خاک اور تباہی میں سے بچ کر نکلتے خوف زدہ حالت میں کئی گھنٹوں بعد دیکھا۔ علاقہ کی تباہی اور مرنے والوں کے لواحقین کی آہ بکا اور تلاش کے دلدوز مناظر دیکھے۔ اس تاریخی ٹریجڈی کے ذمہ دار مسلمان ناموں والے افراد ٹھہرائے گئے تو پھر امریکہ کے مسلمانوں پر ایک نئی قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گردی اور اس نوعیت کی تباہی کا امریکی عوام کو بھی پہلی بار سامنا تھا۔ لہٰذا امریکہ میں بسنے والے مسلمان جو کل تک امریکی معاشرے میں ایک تعلیم یافتہ قابل قبول اور متو سط طبقہ کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہے تھے وہ نہ صرف منجمد ہو گئے بلکہ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مجرم تصور کئے جانے لگے۔ ہزاروں مسلمان امریکہ چھوڑ کر چلے گئے۔ تفتیش اور گرفتاریاں خوب ہوئیں مسلم نام ہی خصوصی چیکنگ و اسکریننگ کا باعث بن گئے۔ مساجد اور اجتماعات کی جگہ خصوصی نگرانی اور سیکورٹی کا جواز بن گئیں۔ مسلمان بچے اپنے ا سکولوں اور درس گاہوں میں خاصی ذہنی کیفیت اور ماحول کو محسوس کرنے لگے۔ اس دور میں مسلمانوں کو ایک صبر آزما جدوجہد سے اکیلے ہی گزرنا پڑا۔ بہت ہی کم ایسے امریکی ہیں جو امریکہ کے مسلمانوں کیلئے ہمدردی اور تعاون کا جذبہ رکھتے تھے۔ مسلم کمیونٹی امریکہ میں آج بھی برائے نام تعداد والی اقلیت ہے مگر تعلیم اور صلاحیت کے لحاظ سے موثر و ممتاز ہے۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کو بھی مسلمانوں کے پرامن ہونے کا تجربہ ہونے لگا۔ 15سال کی آزمائشوں ،تلخیوں نے کچھ سبق سکھایا تو مسلمان امریکیوں نے 2016کے امریکی انتخابات میں اپنے اقلیتی اور شہری کردار کو اجاگر کرنے کے لئےسیاسی نظام میں فعال حصہ لیا۔
مسلمانوں کے بارے میں لبرل امریکیوں کے شبہات دور ہونے لگے۔ مسلمانوں کی اقلیتی شناخت کو تسلیم کیا جانے لگا ۔مسلم اقلیت نے ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کی مگر ہیلری کلنٹن الیکشن ہار گئیں اور ٹرمپ خلاف توقع صدرہو گئے۔لیکن امریکہ کے سیاسی نظام، لبرل حلقوں اوراقلیتوں نے امریکی مسلمانوں کی شناخت کو تسلیم کر لیا۔ آج امریکی معاشرے کے تمام جمہوری اور لبرل غیرمسلم امریکی حلقے مسلمانوں کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے چند مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکم جاری کیا تو غیر مسلم امریکہ اسکی انسانی حقوق کی تنظیموں ،وکلا اور عام شہریوں نے احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ 15سال قبل مسلمان ہونا ایک بڑی آزمائش تھی آج کے ٹرمپ دور میں امریکہ میں بسنے والے مسلمان کے حقوق کلچر اور تشخص کی حمایت غیر مسلم امریکی کر رہے ہیں۔19فروری کو نیویارک کے مشہور ٹائمز اسکوائر پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک سابق دوست اور مالدار کاروباری امریکی رسل سمنز نے مسلمانوؒں کے حق میں ایک ریلی منعقد کی جس کا نعرہ تھا’’ آج میں بھی مسلمان ہوں‘‘ رسل سمنز کا قائم کردہ ’’فائونڈیشن فار ایتھنک انڈر ا سٹینڈنگ ‘‘ تمام مذاہب کیلئے یکساں احترام اور تمام نسل و رنگت کے انسانوں میں افہام و تفہیم اور مساوات کا پرچار کرتا ہے۔ رسلسمنز ڈونلڈ ٹرمپ کے نہ صرف طویل عرصے سے قریبی دوست تھے بلکہ خاتون اول ملینیا کی ٹرمپ سے پہلی ملاقات کے وقت بھی ٹرمپ کے ساتھ موجود تھے۔ جب ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کے طور پر مسلمانوں پر پابندی والا انتخابی بیان دیا تو رسل نے ایک خط لکھ کر ٹرمپ سے احتجاج کیا اور پھر تعلقات بھی منقطع کر لئے۔ ٹرمپ کے جوابی فون کو بھی نظر انداز کر دیا۔ رسل سمنز کی فائونڈیشن کے ایک ڈاکٹر ایک نوجوان پاکستانی،امریکن علی نقوی ہیں جنہوں نے خاموشی سے 19فروری کو ریلی منعقد کرنے میں رول ادا کیا اور لیڈری کی خوش فہمی سے بے نیاز ہو کر کام کرتے رہے۔ رسل سمنز کی اس ریلی کی خبر اور شہرت امریکہ بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کئی ہزار غیر مسلم ہر مذہب و عقیدہ اور ہر نسل و رنگ کے امریکی اس ریلی میں شریک تھے اور 4گھنٹے کے دوران لوگوں کا آنا جانا بھی جاری رہا۔ متعدد امریکی دانشور، رائٹرز اور سماجی مرتبہ کے امریکی ہٹو بچو، تقریر اور شناخت، سے بےنیازہو کر مجمع میں شریک اور بعض نے تو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ کم عمری سے وائٹ ہائوس میں آٹھ سال قیام کرنے والی صدر بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن کی اکلوتی اولاد چیلسی کلنٹن اب ایک یہودی نژاد امریکی سے شادی کر کے ایک دو سالہ بچی کی ماں بن چکی ہیں۔ وہ بھی اپنی بیٹی اور شوہر کو لیکر مسلمانوں کے حق میں ہونے والی اس ریلی میں شریک تھیں۔ان کے اپنے ٹوئٹر کے مطابق ان کی دو سالہ بیٹی شارلٹ کی زندگی میں یہ پہلی ریلی تھی۔ جس میں وہ شریک ہوئی۔ ملاحظہ کیجئے عیسائی ماں اور یہودی باپ کی بیٹی کو مسلمانوں کے حق میں ریلی میں لایاگیا۔ چیلسی اور ان کے شوہر اس ریلی کے مجمع میں عام امریکی کے طور پر شرکت کر کے چلے گئے اور علامتی و حمایتی اعلان کیا ’’آج میں بھی مسلمان ہوں ‘‘ امریکی صدارت کے بعد نیویارک سٹی کے میئر کی اہمیت و حیثیت بڑی ممتاز ہے۔ نیویارک سٹی کے میئر دی بلازیو اس ریلی میں آئے اور اپنی تقریر میں ٹرمپ حکومت سے امیگریشن اور اقلیتوں سے سلوک کے معاملات پر عدم تعاون کا اعلان اور مسلمانوں کی امریکی معاشرے اور نیویارک سٹی میں یکساں شہری کی حیثیت، اسکارف اور مذہبی روایات کا احترام اور عقیدہ کی مکمل آزادی و تحفظ کا یقین دلایا۔ نیویارک کے ایک ممتاز اور موثر یہودی ربی مارک شنیئر تقریر سے فارغ ہوئے تو میں نے اس سے کھل کر سوال کیا کہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے رویہ اور یہودی مسلم دوری نے بھی آپ کو یہاں آنے سے نہیں روکا ؟ یہودی ربی مارک شنیئر کا جواب تھا کہ فلسطین ایک سیاسی مسئلہ اور وقتی تنازع ہے۔مذہبی اقدار اور اسکی آزادی و حرمت ہمارا مشترکہ مسئلہ اور ضرورت ہے۔ میں آج علامتی مسلمان ہو کر آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، عیسائی مسلک کے پادری دیگر مذاہب اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی تقاریر کیں۔ رسل سمنز نے ایسا مدلل اور پراثر خطاب کیا امام شمسی اور دیگر مقررین نے بھی اظہار خیال کیا مئیر بلازیو نے نیویارک پولیس میں900مسلمان پولیس افسروں کی موجودگی اور اعلیٰ کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی امتیازی مسلم مخالف پالیسیوں کی مذمت اور مخالفت کی۔ اسٹیج پر 20سے زائد مسلمان رضا کار مصروف انتظامات رہے۔
15سال قبل قبل تنہائی کی شکار نیویارک کی مسلم کمیونٹی کو آج بھی کئی ہزار غیر مسلم امریکی ان کی حمایت میں آئے۔لیکن کئی ہزار کے اس اجتماع میں صرف چند سو پاکستان، بنگلہ دیش ، بھارتاور عرب ممالک کے مسلمان شریک ہوئے۔ نیویارک، نیو جرسی اور کنکٹی کٹ کی قریبی ریاستوں میں ایک لاکھ سے زیادہ پاکستان اور غیر مسلم دوستوں کی اس ریلی میں صرف چند سو مسلمان ؟ کیا یہ خوف ہے یا لاپرواہی یا خوش فہمی ؟ مشکل لمحات کی آمد آمد ہے۔



.
تازہ ترین