• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک بھر میں مضر صحت پانی کی بڑھتی ہوئی شکایات اس بات کی متقاضی ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر ہنگامی طور پر صاف پانی فراہم کرنے کی تدابیر کریں۔ ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی کی بیشتر بستیوں، خاص طور پر کچی آبادیوں میں پانی کی حقیقی یا مصنوعی کمیابی کے نام پر ٹینکر مافیا، گدھا گاڑیوں پر پانی لانے والے ماشکیوں اور منرل واٹر کے نام سے بوتلوں میں پانی فراہم کرنے والوں کو شہریوں کے استحصال کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہ استحصال ان کی جیبیں کاٹنے کے علاوہ ان کی صحت کو بے رحمی سے نقصان پہنچانے کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ جب بھی شہریوں کی شکایات یا عدلیہ کے حکم پر مذکورہ ذرائع سے فراہم کئے جانے والے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کرایا گیا، بیشتر کے مضر صحت ہونے کی رپورٹیں اخبارات اور میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔ یہ بات کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں، ملک بھر میں مضر صحت پانی سے امراض پھیلنے کی شکایات عام ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے جہاں پانی کا ایک ایک قطرہ احتیاط و کفایت سے خرچ کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہاں بارش اور سیلاب کے پانی کو حفظان صحت کے تقاضوں کے مطابق ذخیرہ کرنے کی تدابیر بھی کی جارہی ہیں مگر ہمارے ہاںدریائوں، نہروں، جھیلوں، یہاں تک کہ ساحل سمندر کو بھی صنعتوں، اسپتالوں اور دوسرے اداروں کے ضائع کردہ مضر صحت مادوں کا مسکن بنادیا گیا ہے۔ مچھلیوں جھینگوں اور آبی مخلوقات کو مرنے یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ہمارے غریب شہریوں کو پیاس بجھانے کے لئے جو پانی پہلے ہر جگہ مفت دستیاب تھا، اب بعض مقامات پر استطاعتِ خرید کی شرط کے ساتھ اس حالت میں دستیاب ہے کہ اس کے مضر صحت نہ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں۔ مسئلے کی سنگینی متقاضی ہے کہ پانی کے ذخائر بنانے سے لے کر دریائوں، نہروں، جھیلوں اور سمندری پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر کام کریں۔ بلدیاتی اداروں کو بھی پانی سمیت کھانے پینے کی تمام چیزوں کو مضر صحت اجزاء سے پاک رکھنے کے لئے کڑی نگرانی کا نظام بنانا ہوگا۔

.
تازہ ترین