• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشیائی زبانوں میں پشتو پر جتنا عظیم تحقیقی کام مستشرقین نے کیا ہے اس سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ بالخصوص انگریز نے اپنے سب سے بڑے اور شاید واحد حریف کو سمجھنے کیلئے کسطرح ان کی زبان کو سمجھنے کیلئے سعی بے مثال کی۔وہاں ایسے انگریز مستشرقین بھی ہیں جنہوں نے خالص علمی و ادبی لگن سے پشتو زبان و ادب میں دلچسپی لی اور قابل قدر خدمات انجام دیں، ایسے اصحاب کے احسانات سے پشتو زبان و ادب کبھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ہم مادری زبانوں کے حوالے سےاس کالم میں ایسے ہی کارناموں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اوراس سلسلے میں مرحوم و مغفور فارغ بخاری کے ایک گراں قدر مقالے سے استفادہ کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈورن (Dorren )نسلاً انگریز تھے ، جرمنی میں پیدا ہوئے، وہی تعلیم پائی،انہیں افغانستان اور کاکیشیا کی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ درسی کتب کے علاوہ 1826میںپختونوں کی تاریخ ، 1845میں پشتو لغت اور 1847میں پشتو زبان پر ایک کتاب شائع کی۔ ایچ جی راورٹی مشہور انگریز مستشرق اور پشتو زبان کے عالم اور نامور مصنف تھے۔ انہوں نے خصوصیت سے دو استادوں سے استفادہ کیا۔ ایک ہشت نگر اور دوسرے قندھار کے تھے، یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کے دونوں لہجوں (Dialects) کے فرق کوراورٹی بخوبی سمجھتے تھے ۔راورٹی کی گرامر کا پہلا ایڈیشن کلکتہ میں چھپا تھا جب اس کا دوسرا ایڈیشن لندن میں آیاتو انگلستان کے اخبارات و رسائل نے اسے شاہکار قرار دیا۔ راورٹی کی دوسری مشہور پشتو تصنیف ’گلشن روہ‘ ہے جو پشتو کے نامور شعرا کے منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر ڈرون نے بھی پشتو منظومات اور نثر کا انتخاب شائع کیا تھا۔ راورٹی نے انگریزی میں ترجمہ کرکے پشتون شعرا کو یورپ میں متعارف کرایا۔ علامہ اقبال بھی راورٹی کے اس ترجمہ کی وساطت ہی سے پہلی دفعہ پشتون شعرا خصوصاً خوش حال خان خٹک کے کلام سے متعارف ہوئے۔حضرت اقبال کی بعض اصطلاحات شاہین، شہباز اور خود ی وغیرہ کا ماخذ خوش حال خان کا کلام ہی بتایا جاتا ہے۔راورٹی نے مینول آف پشتو کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ،انہوں نےپادری جیمز کی مشہور کتابAesop Fables (ایسوپ کے قصے )کا پشتو ترجمہ شائع کیا۔ یہ کتاب پشتو نثر کی غالباً پہلی مطبوعہ کتاب ہے جو 1871میں لندن میں شائع ہوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر یارمحمدمغموم خٹک کی ’کلیات خوشحا ل بابا ‘کے مطابق میجر راورٹی نے 1860میںخوشحال بابا کی شارٹ ہینڈZanjiri(زنزیری)لندن سے شائع کی۔اس کتاب کے صفحہ 28 پر راورٹی کا کہنا ہے کہ اس مختصر نویسی((Shorthandکو صرف خوشحال خان اور اُن کے اہلِ خاندان ہی سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر ہنری والٹر جب سپرنٹنڈنٹ جیل پشاور تھے تو انہوں نے خوش حال خان خٹک کا پہلا دیوان 1870میں شائع کیا۔
سرگریرسن کو ’ہندوستانی لسانیات کا جائزہ ‘ پر آرڈر آف میرٹ کا اعزاز ملا یہ کتاب 19جلدوں میں 1827میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں پشتو زبان اور اس کے مختلف لہجوں پر بھرپور بحث کی گئی ہے ۔مالیون نے پشتو زبان کے کچھ عوامی قصے کلکتہ سے شائع کیے۔ٹی سی پلوڈن نے انگریز افسروں کے پشتو نصاب کے لئے ’گنج پشتو‘ لکھی جس کا 1875میں انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا پھر 1903میں ایک اور انگریز بی ای ایم گرڈن نے گنج پشتو کا ترجمہ چترالی زبان میں کلکتہ سے شائع کیا۔
جیمز ڈار مسٹیٹرمشہور مصنف اور محقق تھے 1892-93میں ژنداوستا کا  ترجمہ کیا۔آپ 1885میں کالج آف فرانس میں ایرانی اور پشتو زبان و ادب کے پروفیسر مقر تھے۔پشتو عوامی گیتوں کا مجموعہ ’’پختونخوا ہارو بہار‘‘ کے نام سے 1888 میں پیرس سے شائع کیا۔اپنی اس کتاب میں ڈار مسٹیٹر نے نہ صرف پشتو زبان کی اصل کے متعلق محققانہ بحث کی ہے بلکہ پشتو کے ایسے چار بیتے بھی محفوظ کردئیے ہیںجو اس وقت کے سیاسی حالات اور پختونوں کے جذبہ حریت کی عکاسی کرتے ہیں، علاوہ ازیں اس کتاب کی وساطت سے بعض ایسےپختون شعرا کے نام بھی ہم تک پہنچے ہیں جو بصورت دیگر سینکڑوں دوسرے عوامی شعرا کی طرح تاریکی ہی میں کھوئے رہتے۔سراولف کیرو قیام پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد کے گورنر رہ چکے ہیں انگلستان واپس جاکر انہوں نے’ دی پٹھان‘ کے نام سے ایک تاریخی کتاب لکھی جس کا اردو میں ترجمہ پشتو اکیڈمی پشاور نے شائع کیا ہے۔گلبرٹ سن (Gilburtson)  نے پشتو زبان پر اپنی پہلی تصنیف بنارس اور دوسری 1929میں ہرٹ فورڈ سے شائع کی۔ اسی سال ان کی ایک اور کتاب پشتو محاورہ لغت پر (The English Pushtu Colloquial Dictionary) لکھی جو لندن سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب خوش حال خان خٹک کی نظموں پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر میکنزی لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے خوش حال خان خٹک کی کچھ نظموں کا انگریز ی میں ترجمہ کیا جو کتابی صورت میں شائع ہوا۔گرائیگر نے ایک رسالہ لکھا جس میں پشتو الفاظ کا مقابلہ اوستا اور سنسکرت کے الفاظ سے کیا ہے۔ڈاکٹرمارگنسٹرن ایک عرصے تک افغانستان میں رہے، ان کی پشتو زبان اور پشتون قوم کے متعلق کتابی شکل میں(Report on a Linguistic Mission of North West India کے نام سے1932 میں اوسلو یونیورسٹی ناروے کی طرف سے شائع کی گئی۔ انہوں نے ایک کتاب پشتو اشتقاقات (Etymology) پر اور ایک کتاب خوشحال خان خٹک کی شاعری پر بھی لکھی۔ڈاکٹر ٹرمپ نے 1873میں پشتو گرامر لکھی جو لندن میں دی آنا امپریل اکیڈمی آف سائنس کی مدد سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر ٹرمپ نے اس کا دیباچہ ٹیو بنگن جرمنی میں لکھا ۔ٹیوبنگن کے کتب خانہ میں پشتو کی سینکڑوں قدیم کتب موجود ہیں ان قلمی نسخوں میں بایزید انصاری(پیر روخان با با) کی مشہور کتاب ’’خیر البیان‘‘ بھی ہے جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے۔پشتو اکیڈمی پشاور کے ڈائریکٹر مولانا عبدالقادر مرحوم نے اس کتاب کی فوٹواسٹیٹ حاصل کی اور اِسے پشاور اکیڈمی سے شائع کیا ۔
پادری ہیوز پشتو زبان کے مشہور عالم تھے، ان کی خدمات پشتو زبان و ادب کے سلسلے میں ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔ آپ کی پشتو نظم و نثر کے منتخب شہ پاروں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ’’کلید افغانی‘‘ کے نام سے لاہور میں طبع ہوئی۔
اس ادنیٰ طالب علم کے سامنے ایسے مستشرقین کی مزید فہرست موجود ہے جنہوں نےپشتو لغت ،ادب و تاریخ کے حوالے سے لاثانی خدمات انجام دی
ہیں،تاہم ایک کالم میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ پھر کہنا یہ بھی ہے کہ پادری ہیوز ،میجر راورٹی اور دوسرے مستشرقین نے پشتو زبان وادب کے نوادرات جمع کرکے اپنے ملک کے کتب خانوں کی زینت بنائے۔ اپنے بزرگوں کے ان شہ پاروں کو لندن و یورپ کے کتب خانوں میں دیکھ کر ہر علم دوست پختون کے دل کو دھچکا لگتا ہوگامگر ہم علم و ادب کے ان قدر دانوں کے شکر گزار بھی ہیں جنہوں نے ان نوادرات کو محفوظ کرلیا، ورنہ یہاں تو اپنی قدردانی کا یہ عالم ہے کہ اس قسم کی پرانی کتابیں یا تودریا برد کردی جاتی تھیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتی ہیں۔



.
تازہ ترین