• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کا تمام حسن صحت سے مشروط ہے۔ صحت ہو تو ہر شے بھلی لگتی ہے۔ انسان معاشی مسائل اور سماجی معاملات کی پروا نہیں کرتا۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی مطمئن رہتا ہے مگر صحت نہ ہو تو محلوں کی زندگی اور تعیشات بھی ایک آنکھ نہیں بھاتیں، زندگی بوجھل ہو کر رہ جاتی ہے، انسان قدرت کی نعمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے تو مادی دولت اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ صحت سب سے بڑی دولت ہے۔ علم کے زور پر ظاہری دنیا کے مشاہدات، تجربات اور ایجادات کے ذریعے دنیا کو تسخیر کرتا رہتا ہے مگر اپنے باطن میں لگی بیماری کی دیمک سے لاعلم رہتا ہے۔ پھر ایک دن جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے تو اُسے خبر ہوتی ہے کہ اس کے جسم کو بیماری نے کس حد تک متاثر کر دیا ہے۔ انسان بھی کیا عجب مخلوق ہے۔ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے، سمندروں کی تہہ تک کھنگال سکتا ہے مگر اپنے اندر کے حالات معلوم کرنے کے لئے اسے کسی اور کی آنکھ درکار ہے۔ شاید اسی مقصد کے لئے سائنس نے ایلوپیتھک طریقۂ علاج دریافت کیا اور اس میں مسلسل دریافتیں جاری ہیں۔ بہت سی ناممکنات پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جب لاعلاج امراض کے لئے شفا کا وسیلہ بنے تو لوگوں نے انہیں مسیحا کا خطاب دیا، ان پر اندھا اعتماد کیا، ان کی کہی ہوئی ہر بات پر عمل کیا اور انہیں اپنا سب سے بڑا خیر خواہ قرار دیا مگر گزشتہ کچھ سالوں سے مادیت کے زیرِ اثر کچھ ڈاکٹروں نے طب کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ سرکاری اسپتالوں میں تمام سہولتیں ہونے کے باوجود مریضوں کی آہ و زاری کا سبب بننے والے ڈاکٹروں کا خمیازہ حکومتِ وقت اور شعبۂ صحت کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ویسے تو پچھلے کئی سالوں سے صحت کے شعبے میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں مگر وہ اقدامات جو ہم سب کے لئے خواب کی طرح تھے انہیں تعبیر اب دی جا رہی ہے۔ حکومت کی خاص نظرِ کرم کا یہ عالم ہے کہ اس شعبے کے لئے اسپیشلائزڈ اور پرائمری حصوں کے دو وزراء اور سیکرٹری صحت انہماک سے پنجاب میں صحت کے معاملات حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ بہت سے اسپتال جو بند پڑے ہیں انہیں دوبارہ نہ صرف کھولا جارہا ہے بلکہ جدید سامان سے لیس کیا جا رہا ہے۔ موجودہ اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ لاہور کے اسپتالوں میں مریضوں کا رش کم کرنے اور ان کے عزیز رشتہ داروں کو کوفت سے بچانے کے لئے دیگر شہروں میں بڑے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ کئی بڑے منصوبوں کا افتتاح 23 مارچ کو ہو رہا ہے جن میں OPD بلاک سروسز اسپتال لاہور، کڈنی ٹرانسپلانٹ و ڈائیلسز یونٹ بہاولپور، فاطمہ جناح برن و سرجری سینٹر لاہور، جدید برن یونٹ نشتر اسپتال ملتان، برن و سرجری سنٹر الائیڈ اسپتال فیصل آباد، ماسٹر پلان لاہور جنرل اسپتال شامل ہیں جبکہ دیگر اہم منصوبے جو جون 2017ء تک مکمل ہو جائیں گے اُن میں فیصل آباد اور ملتان میں چلڈرن اسپتال فیصل آباد، 150 بیڈز پر مشتمل نئے بلاک کی تعمیر چلڈرن اسپتال، ملتان کی تعمیر شامل ہے۔ دسمبر 2017ء تک مکمل ہونے والے منصوبوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ساہیوال کی بطور ٹیچنگ اسپتال اپ گریڈیشن کے علاوہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز لاہور کا قیام، میو اسپتال میں سرجیکل ٹاور کی تعمیر، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ڈیرہ غازی خان کی بطور ٹیچنگ اسپتال اپ گریڈیشن، بہاولپور اسپتال میں کارڈیالوجی و سرجری بلاک کی تعمیر، وزیر آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوج وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ، شیخ زید میڈیکل کمپلیکس فیز II رحیم یار خان کی تعمیر، نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ جناح اسپتال لاہور کی اپر گریڈیشن، آپریشن تھیٹرز، آئی سی یوز شیخ زید میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور کی اپ گریڈیشن شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال گوجرانوالہ کی بطور ٹیچنگ اسپتال اپ گریڈیشن، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سیالکوٹ کی بطور ٹیچنگ اسپتال اپ گریڈیشن، ریڈیالوجی و اسپیشلسٹ ڈیپارٹمنٹ سروسز اسپتال لاہور کی اپ گریڈیشن، 115 بیڈز پر مشتمل بچوں کی کارڈیالوجی و سرجری سینٹر کا چلڈرن اسپتال لاہور میں قیام اور نواز شریف میڈیکل کالج گجرات کے اکیڈمک بلاک کی تعمیر جون 2018ء تک متوقع ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کے بیشتر اضلاع میں 14 بلین روپے کے پریمیم سے ہیلتھ انشورنس کا اعلان کیا گیا ہے جو بہت ہی خوش آئند امر ہے۔ نیز پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے تحت 40 اسپتالوں کی اپ گریڈیشن بھی ہو رہی ہے۔
ادارے کے سربراہ کےلئے دلیر اور وژنری بنیادی خصوصیت ہوتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ سیکریٹری ہیلتھ نجم شاہ چیلنجز قبول کرنے والی شخصیت ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ پنجاب کا شعبۂ صحت جو بے شمار مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ان کی رہنمائی میں درست سمت سفرآغاز کرے گا۔ اداروں کے ایسے بڑے فیصلوں کو اگر سول سوسائٹی اور میڈیا کا تعاون حاصل ہو تو وہ بہت جلد اپنے ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ باقی ڈاکٹروں کے اوقات کار تو حکومت متعین کر سکتی ہے اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی ممکن ہے مگر نیک نیتی، غریب پروری اور مسیحائی کے جذبات کو تو انہیں خود ہی بیدار کرنا ہو گا۔ کبھی بیماری میں اسپتال پہنچ کر بندہ ہر دُکھ بھول جاتا تھا کہ اب محفوظ ہاتھوں میں ہے مگر اب تو مریض اسپتال کی طرف جاتے ہوئے رستے میں خوف سے ہی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے یہ سوچ کر کہ کہیں آج بھی مسیحائوں کی ہڑتال نہ ہو۔
1122 کے ذریعے تمام ایمبولینس کا کنٹرول، سی ٹی اسکین کی فراہمی، ہیپا ٹائٹس کی روک تھام کےلئے اقدامات اور متوازن غذا کی عدم دستیابی پر قابو پانا سب سے اہم بات ہے۔ اگر متوازن غذا کی عدم دستیابی یعنی ملاوٹ کو محکمۂ صحت اپنی ترجیحات میں شامل کر لے تو پاکستان کے شہریوں کو کافی حد تک جسمانی بیماریوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے تاہم روحانی اورذہنی بیماریاں اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت کے طور پر موجود ہیں اور معاشرے میں عدم توازن کا باعث بن رہی ہیں۔ ان کے سد باب کے لئے بھی کچھ اداروں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ ذہنی الجھنوں کے شکار رہنمائوں اور مبلغین نے ملک میں مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کر رکھا ہےوہ اپنے مفادات کے لئے لوگوں کو تقسیم کر رہے ہیں جس سے بہت سی اذیتیں جنم لے رہی ہیں جو پوری معاشرتی فضا کو آلودہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
میں بطور شہری ان تمام اقدامات پر حکومتِ پنجاب کو مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں کیوں کہ بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے کر انہوں نے عوام دوستی کے جس جذبے کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ آئیے ہم سب بھی اس کارِ خیر میں معاشرے کو ہر قسم کی بیماریوں سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ روز روز ہڑتالوں پر جاکر لوگوں کی زندگی کو موت کے قریب کرنے والے کے نام غالب کا یہ شعر:
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

.
تازہ ترین