• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اگر عجزبیان کے باعث نہ کہہ پائوں تو پلیز آپ ذرا ایکسٹرا کوشش کر کے اسے جاننے کی کوشش کیجئے۔ وہ جو مصرع ہے ’’ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ تو پورا شہر اس کی تصویر بنا ہوا ہے اور یہ تصویر ایک عجیب سا پیغام دے رہی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان کیلئے جنہیں اللہ نے غور و فکر کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔لاہوریوں کے بارے مشہور ہے کہ برپشم قلندر میلوں ٹھیلوں کے رسیا ہیں یا کھابوں کے شوقین ورنہ صدیوں اس قسم کے ’’شعر‘‘ وجود میں نہ آتے؎بارہ دروازے تے تیرہ میلےگھر جاواں میں کیہڑے ویلےیعنی شغل میلہ مل جائے تو انہیں گھر بار بھی بھول جاتا ہے۔ میری اس بات پر ہے کہ اب تو لاہور میں لاہوریے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اکثریت ان کی ہے جو باہر سےآکر یہاں سیٹل ہوئے اور پھر اوریجنل، جینوئن لاہوریوں کے رنگ میں رنگے گئے۔منظر نامہ کیا ہے؟کام کاج، دکانیں، نوکریاںچھوڑ چھاڑ کر ٹوٹتی بنتی قطاروں کا منظر آپس میں گھتم گتھا، کھڑکی توڑ رش، دھکم پیل عروج پر، ٹکٹوں کی بلیک اور سرعام بلیکئے، کرکٹ کیلئے وہ ’’جوش و جذبہ عقیدت و احترام‘‘ جو شاید کسی اور شے کے لئے بھی دکھائی دیتا ہو، انگریزوں کی ’’ایجاد‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بول نہیں چیخ رہا ہے۔ بینکوں کے باہر دھرنے، گھونسے لاتیں ٹھڈے، مکے، جیب کتروں کی چاندی، صبح 6بجے سے طبل جنگ کا بجنا، لوگ لمبے لمبے سفر کر کے آئےاور گو ہر مراد پائے بغیر دھکے پائے اور نان چھولے کھا کر خالی ہاتھ لوٹ گئے، یار محمد نامی 80 سالہ بوڑھے کی دھمال بھی سیہون شریف تک سنی گئی ہوگی۔ سب سے بڑھ کر ہیسٹریا کا شکار اینکرز اور رپورٹرز.....مجھے قدیم روم کا کلوسیم یاد آیا، وہ رومن اکھاڑے جو قحط کے دنوں میں بھی کھول دیئے جاتے تو ’’ٹکٹوں‘‘ کیلئے ایسا ہی سماں ہوتا تھا۔ غلام غلاموں اور بھوکے وحشی درندوں سے لڑائے جاتے۔ عوام کا ولولہ، جوش و خروش دیدنی ہوتا۔ لاشیں گرتیں، نعرے بلند ہوتے، تالیاں گونجتیں، زندہ دلان روم پر وحشت اور دیوانگی سی طاری ہو جاتی لیکن اب دنیا بدل گئی ہے، مہذب ہوگئی ہے کیونکہ گلیڈی ایٹرز کی جگہ ماڈرن گلیڈی ایٹرز آگئے ہیں جو ہتھیاروں سے نہیں بالوں اور بلوںسے لیس ہو کر ایرینا میں اترتے ہیں، سٹارز اور سپر سٹارز کہلاتے ہیں اور موقع ملے تو بکیوں سے مل کر میچ فکسنگ وغیرہ بھی کر لیتے ہیں۔سب اچھا ہے، سب ٹھیک ہے پوری دنیا میں یہی کچھ یا اس سے ملتا جلتا ہورہا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ مضبوط، متمول متمدن اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم قوموں کے کاموں، رویوں اور ترجیحات میں کوئی فرق ہونا چاہئے یا نہیں؟ میں نہ کوئی اعتراض کررہا ہوں نہ رائے دے رہا ہوں، صرف اک خیال ہے جو آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔اصل سوال کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ جتنی یکسو قسم کی دیوانگی، والہانہ بلکہ پاگل پن، جوش جذبہ جنون کے ساتھ لوگ پیسے خرچ کر کے ٹکٹوں کے حصول کیلئے نکلے۔ اس سے آدھے جذبے کے ساتھ اپنے اور اپنے بچوں کے حقوق حاصل کرنے کیلئے کیوں نہیں نکلتے؟ یہ بے خبری ہے، بے حسی ہے، بیچارگی ہے یا وہی پرانا ڈی این اے والا پرابلم کہ۔’’بارہ دروازےتے تیرہ میلےگھر جاواں میں کیہڑے ویلے‘‘میں تو نفسیات کی اے بی سی نہیں جانتا لیکن کچھ ماہرین نفسیات کو اس صورت حال کا تجزیہ ضرور کرنا چاہئے۔ عجیب بات ہے لوگ ٹکٹ نہ ملنے پر تو بیحد ناراض اور نالاں ہیں حالانکہ یہ ’’میچ شریف‘‘ تو سکون سے ٹی وی پر بھی دیکھا جاسکتا ہے اور شایدزیادہ بہتر طور پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن لوگ اس بات پر ناراض اور نالاں کیوں نہیں کہ ان کے بچوں کو آرسینک ملا پانی پینا پڑتا ہے، وہ شدید قسم کی کم خوراکی کا شکار ہیں، انہیں تعلیم کے حق سے محروم کیوں رکھا جاتا ہے۔ پٹوار سے لیکر تھانے دار تک ہر کوئی ان کی عزت نفس کو چوکے چھکے کیوں مارتا ہے۔ کوئی ظلم زیادتی ہو تو انہیں نسلوں تک انصاف کیوں نہیں ملتا۔ ہم بھاری اکثریت میں ہونے کے باوجود اسمبلیوں میں دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ ہم شہریوں کی بجائے رعایا کیوں؟ انسانوں کی بجائے صرف شناختی کارڈ نمبر کیوں؟ تم ہمارا ملک کیوں لوٹتے ہو؟ تم اپنی آمدورفت پر ہمارے راستے بند کر کے ہماری بے عزتی کیوں کرتے ہو؟ٹکٹ کے حصول پر دکھائی جانے والی دیوانگی کا دسواں حصہ بھی اگر مندرجہ بالا چند سوالوں پر خرچ کر دیا جائے تو اس ملک کے حکمران طبقات صفر پر آئوٹ ہو جائیں اور عوام کی سینچریاں گننا مشکل ہو جائے۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ پی سی بی کو جتنی آمدنی ہوگی، خرچ اس سے ہزاروں گنا زیادہ ہوگا۔ پولیس، رینجرز فوج تک سب کچھ شامل کریں تو آمدنی اور اخراجات کا تناسب ہی ہوشربا ہوگا لیکن آمدنی کو گولی ماریں کہ کچھ چیزیں پیسے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ اصل سوال قوم کا مورال اور دنیا کو میسیج دینا ہے تو کان کھول کر سن لو قوموں کے مورال اس طرح بلند نہیں ہوتے کہ یہ بھونڈا اور بھدا طریقہ ہے۔ 70 سال سے گرا مورال چند گھنٹے میں بلند نہیں ہوتا۔ رہ گیا دنیا کو پیغام تو عمران ٹھیک کہتا ہے کہ 60ہزار کی نفری لگا کر 30 ہزار تماشائی اکٹھے کرنا کیسا پیغام ہے اور یوں بھی کرفیو لگا کر تو شام اور عراق میں بھی میچ کرایا جاسکتا ہے؎بارہ دروازے تے تیرہ میلےسوچاں تے میں کیہڑے ویلے

.
تازہ ترین