• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں ایک بڑی نظریاتی تقسیم ہونے جا رہی ہے، جس کا بڑا معرکہ یوپی کے انتخابات میں پڑا ہوا ہے۔ ہندوتوا کی جس لہر کو بہار کے انتخابات میں سیکولر اور نچلی جاتیوں کی جماعتوں نے پسپا کر دیا تھا، وہ اب ’’ہر ہر مودی، گھر گھر مودی‘‘کے نعرے پہ گؤ ماتا کی پٹی اور بھارت کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں لگتا ہے اپنا رنگ کافی جما پائے گی۔ اگر یوپی کے انتخابات وزیراعظم نریندرا مودی کیلئے سیمی فائنل ہیں تو یہ وہاں کی حکمران جماعت سماج وادی پارٹی اور اُس کی نحیف حلیف کانگریس کیلئے فائنل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ایک طرف بھاجپا یا بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جو ’’گنڈا راج اور بھرشٹا چار‘‘ کے خلاف وکاس یعنی ترقی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہندو نفرت انگیزی سے فرقہ وارانہ تقسیم (Communal Divide) اور مسلمانوں کی تکفیر پر جُتی ہے۔ اور اونچی جاتی کے ہندوؤں اور جاٹوں کی بڑی تعداد اور درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر جاتی وارانہ نظام اور بڑے اجارہ دار سرمایہ داروں کے راج کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب نچلی جاتی کی جماعتیں جیسے یوپی کی حکمران سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی مسلمانوں کو ساتھ ملا کر سیکولرازم کے دفاع میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ لیکن دلتوں کی جماعت بہوجن سماج پارٹی اور دوسری نچلی جاتیوں (Other Backward Castes) جیسے یادیو وغیرہ کی سماج وادی پارٹی کے باہم ٹکراؤ کے باعث ہند وتوا مخالف محاذ بٹ گیا اور مسلمان بھی جن کی آبادی 22 کروڑ کے یوپی میں 4 کروڑ ہے، لگتا ہے کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرے گی۔ 2014ء کے قومی انتخابات میں مودی نے یوپی کی 80 لوک سبھا کی نشستوں میں سے 73 نشستیں جیتی تھیں اور اس نے 40 فیصدووٹ لئےتھے۔ جبکہ یوپی میں 29/30 فیصد ووٹ لے کر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اپنی حکومتیں بناتی رہی تھیں۔ اگر بی جے پی بھاری اکثریت سے نہیں بھی جیتتی، یہ یقیناًیوپی کی بڑی جماعت بن کر شمالی ہندوستان میں اپنا سکہ جما لے گی۔ یوں مودی کو راجیہ سبھا میں نہ صرف اکثریت حاصل ہو جائے گی بلکہ 2019ء کے انتخابات میں اس کی کامیابی کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا۔ اس کامیابی سے مودی اندراگاندھی کے بعد سب سے طاقتور وزیراعظم بن کر اُبھریں گے۔ وہ پہلے ہی اپنی جماعت، کابینہ اور دلی کی راجدھانی کی مقتدرہ سے ماورا مردِ آہن کا روپ دھار چکے ہیں جبکہ سیکولر جمہوری قوتیں ہندو قوم پرست لہر کے آگے کھڑی ہونے کے باوجود پسپائی کا شکار ہیں۔
انتخابات تو اور چار ریاستوں میں بھی ہو رہے ہیں جس کا نتیجہ اگلے اتوار تک آ جائے گا۔ پنجاب میں بی جے پی کی بڑی اتحادی شریمنی اکالی دل کی عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے ہاتھوں زبردست شکست ہوتی نظر آ رہی ہے، جبکہ اُتراکھنڈ، مانی پور اور گوا کی ریاستوں میں بی جے پی اپنی دھاک جمانے کو ہے۔ اس سال کے آخر میں ایک اور بڑا معرکہ مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہونے جا رہا ہے جس میں اُس کے مقابل عام آدمی پارٹی زبردست مہم چلانے جا رہی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ علاقائی جماعتیں اور نچلی جاتی کی جتھہ بندیاں ہند وتوا کی جارحانہ قوم پرستی کے آگے نہیں ٹھہر پائیں گی۔ راہول گاندھی مودی جیسی طاقتور شخصیت کے خلاف پسپا ہوتی ہوئی کانگریس کو کھڑا کرنے میں ناکام دکھائی پڑتے ہیں۔ جبکہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار یا پھر یوپی کے چیف منسٹر اکھلیش یادیو کی اپیل محض دوسری پچھڑی ہوئی جاتیوں تک محدود ہے۔ اکھلیش یادیو نے اپنے والد ملائم سنگھ یادیو کو سائیڈ لائن تو کیا کہ وہ شفاف چہرے سے سامنے آئے، لیکن پدری سائے سے باہر نہیں نکل پائے، جیسے ہمارے بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری کے شکنجے میں پھڑپھڑا کر رہ گئے ہیں۔ رہی عام آدمی پارٹی جو دلی اور پنجاب میں جیت کر گجرات میں معرکہ کرنے جا رہی ہے، اس کے پاس عمران خان کی طرح کرپشن اور ’’آزمائے ہوؤں کو کیا آزمانا‘‘ کے مُدے ہیں، شاید زیادہ حمایت حاصل نہ کر پائیں۔ یوں 2019ء میں بھی ’’ہر ہر مودی‘‘ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ہندو قوم پرست مودی بڑے کارپوریٹ سیکٹر (جس نے میڈیا کو بھی جیب میں ڈال لیا ہے) اور 40 کروڑ کی مڈل کلاس کو ہاتھ ملا کر اگلے برسوں میں بھارت کو خطے میں بڑی طاقت بنانے کی راہ پر چلتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا بڑا مسئلہ چین ہے اور پاکستان بھی۔ چین نے نہ صرف جنوبی ایشیا کے تمام ممالک بشمول بھارت اور وسطی ایشیا کے تمام ممالک اور ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں برتری حاصل کر لی ہے اور اس کے ایک سڑک اور ایک راہداری کے منصوبے کی لپیٹ میں ایشیا کے تقریباً تمام ممالک آنے جا رہے ہیں۔ بھارت کیلئے بڑا سوال اس منصوبے کی گاڑی میں سوار ہونا ہے یا پھر تنہا رہ جانا ہے۔ چینی بھارت کو شامل کرنا چاہتے ہیں اور چین پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) میں بھی بھارت کو دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ جو وزیراعظم نواز شریف نے اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ECO) میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی چین ہی کے زور پر کی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ سارک کے جنوبی ایشیا کے ممالک اور ایکو کے وسطی و مغربی ایشائی ممالک کے مابین پاکستان ایک پُل بنے اور بھارت کے پاس شاید چارہ نہ رہے کہ وہ کسی مرحلہ پر اس پُل کو استعمال کرنے میں ہی اپنی معاشی بھلائی پائے۔ لگتا ہے کہ یوپی کے انتخابات کے بعد مودی پھر سے مذاکرات کی میز پر واپسی کیلئے تیار ہوں۔ اس بار ایجنڈا باہم تنازعات سے بڑھ کر پورے خطے کی معاشی کایا پلٹ کا ہو۔ شاید لوگوں کو معلوم نہیں یا پھر صرفِ نظر ہے کہ چین کے ایک سڑک اور ایک راہداری کے عظیم منصوبے میں ہمالیہ اور ہندوکش بھی شامل ہیں اور وہ سرینگر اور لداخ کو بھی اکسائی چن سے ملانا چاہتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم بڑی گیم کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پھر مقامی اور دو طرفہ جھگڑوں میں باہمی تباہی کے راستے پہ ڈٹے رہتے ہیں؟
بھارت کے مختصر سے ذاتی دورے میں مجھے لگا کہ ’’رد الفساد‘‘ کے حوالے سے کئےجانے والے اقدامات پر شک کے باوجود دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اور اگر کالعدم تنظیموں کے حوالے سے کچھ ٹھوس اقدامات ہوتے ہیں تو مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم وزارتِ خارجہ میں نئی ٹیم لائے ہیں اور اُن کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل جنجوعہ اور مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول (Doval) میں اچھا باہم نامہ و پیام کا سلسلہ ہے۔ جنرل باجوہ کے کمان سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے نئی پیش رفت کی ہے جس کا دُنیا بھر میں اچھا پیغام گیا ہے۔ اب کشمیریوں کو بھی جہادیوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ اب پاکستان کیلئے کوئی اچھا شگون ہیں۔ تو پھر دیر کاہے کی؟ جس روز سیہون شریف میں شہباز قلندر کے مزار پر 100 کے قریب یاتری مارے گئے تو کسی شخص نے مجھے طعنہ مارا کہ آج بھارت نے 100 سیٹلائٹ خلا میں چھوڑے ہیں تو میرے زخم خوردہ دل پہ بہت زور کی چوٹ پڑی۔ اور جب اگلے ہی روز میں جشنِ ریختہ میں گیا جہاں اُردو کا جشن منایا جا رہا تھا تو بھارت میں جاری مذہبی منافرت اور پاکستان میں جاری دہشت گردی کا جواب مل گیا۔ دس پندرہ ہزار نوجوان لعل شہباز قلندر کی یاد میں لال موری پت رکھیؤ بلا جھولے لالن کی دُھن پر مستانہ وار دھمال ڈال رہے تھے اور میں بھی اُن کے ساتھ دھمال میں شامل ہو گیا۔ دمادم مست قلندر!



.
تازہ ترین