• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ عجیب کھیل تھا، ہار اور جیت تو ہر کھیل میں ہوتی ہے لیکن اس کھیل میں صرف جیتنا تھا۔ ہارنے کا آپشن ہی نہیں تھا حالانکہ مقابلہ ان سے تھا جو مرنے مارنے پر تیار تھے۔ یہ اس کھیل کی بات ہورہی ہے جو پانچ مارچ کو لاہور میں ہوا۔پانچ مارچ2017ءکو لاہور میں دو میچ ہوئے۔ ایک میچ پی ایس ایل کا فائنل تھا جو قذافی اسٹیڈیم میں پشاور اور کوئٹہ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہوا۔ دوسرا میچ قذافی اسٹیڈیم کے باہر ہوا۔ اس میچ میں ایک طرف پولیس، رینجرز اور فوج سمیت دیگر سیکورٹی ادارے تھے اور دوسری طرف وہ تھے جنہیں لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل تباہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور وہ کسی بھی وقت کہیں بھی بم دھماکہ کرسکتے تھے۔انہی دشمنوں نے تیرہ فروری کو پنجاب اسمبلی کے باہر بم دھماکہ کیا تھا جس میں دو اعلیٰ پولیس افسران سمیت ایک درجن سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔ اس بم دھماکے کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ دشمنوں نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں روکنے کے لئے سازش کی ہے۔ اس بم دھماکے کے چند گھنٹوں بعد جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، ائیر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب اور سابق آئی جی اسلام آباد طاہر عالم کے ساتھ گفتگو کے بعد اس خاکسار نے گزارش کی تھی کہ پانچ مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ضرور ہونا چاہئے تاکہ دشمن کو پتہ چلے کہ یہ قوم بم دھماکوں کے آگے ہتھیار پھینکنے والی نہیں۔ یہ صرف میری نہیں بلکہ اکثر پاکستانیوں کی رائے تھی۔ سوال اٹھایا گیا کہ اگر غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟اس ناچیز کا خیال تھا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان آکر کھیلنے پر راضی کیا جائے، اگر کوئی نہیں آتا تو نہ آئے لیکن پی ایس ایل کا فائنل لاہور ہی میں ہونا چاہئے۔ پھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا موقف سامنے آگیا۔ انہوں نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے لئے فوج کی طرف سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرادی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی بہت صلاح مشورے کے بعد وہی فیصلہ کیا جو قوم کے دلوں کی آواز تھی لیکن عمران خان نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کو پاگل پن قرار دے دیا۔یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ عمران خان نے یہ بیان صرف مسلم لیگ(ن) سے نفرت میں دیا کیونکہ واقعی کیون پیٹرسن سمیت کئی غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردیا لیکن عمران خان اپنے کہے گئے الفاظ کیوں بھول گئے؟وہ خود ہی کہا کرتے تھے کہ نیت اچھی ہو اور اللہ پر بھروسہ کیا جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔وہ تو خود جنون کی باتیں کیا کرتے تھے لیکن جب پوری قوم جنونی بن کر مرنے کے لئے تیار ہوگئی تو عمران خان نے عقل کی باتیں شروع کردیں۔ بہرحال پانچ مارچ کو قذافی اسٹیڈیم کے اندر بھی میچ ہوا اور باہر بھی ہوا۔ اندر والے میچ میں دو ٹیموں کے گیارہ گیارہ کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف زور لگارہے تھے لیکن باہر والے میچ میں پوری قوم کا مقابلہ ان طاقتوں سے تھا جو پاکستان میںبین الاقوامی کرکٹ کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے اعتماد اور حوصلے کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اندر والے میچ میں ایک ٹیم ہار گئی ایک جیت گئی لیکن باہر والے میچ میں پوری قوم جیت گئی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کرکٹ کے ایک میچ کے لئے اتنے خطرات کیوں مول لئے گئے؟ یہ مت بھولیئے کہ کرکٹ ہماری قوم کو متحد کرنے والی کھیل بن چکی ہے۔ آپ یہ کہہ کر کرکٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ تو فرنگیوں کا کھیل ہے اور وقت کا ضیاع ہے۔ ا پنی تاریخ کو غور سے پڑھیئے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن قیام پاکستان سے قبل دو قومی نظریے کے فروغ میں کرکٹ کا اہم کردار تھا۔ لاہور کی سب سے پرانی کرکٹ گرائونڈ لاہور جم خانہ(باغ جناح) گرائونڈ ہے جو1880ء میں بنائی گئی۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا کرکٹ میوزیم بھی ہے جو بتاتا ہے کہ لاہور جم خانہ گرائونڈ پر مسلمانوں اور سکھوں کی ٹیم کے درمیان کرکٹ میچ 1923ءمیں ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی، بمبئی، مدارس اور کلکتہ میں ایسے ٹورنامنٹ ہوتے جن میں ہندوئوں، مسلمانوں، پارسیوں اور یورپینز کی ٹیمیں حصہ لیا کرتیں۔ ایک ٹیم میں مسیحی، سکھ، بدھ مت کے ماننے والے اور یہودی شامل ہوتے تھے۔ کچھ مہاراجوں اور نوابوں نے بھی اپنی ٹیمیں بنا رکھی تھیں جو خود بھی کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے۔ متحدہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ برطانیہ کے خلاف 1932ءمیں لارڈز میں کھیلا تھا۔ اس ٹیم کے کپتان سی کے نائیڈو تھے جبکہ سید وزیر علی، سید نذیر علی، ڈاکٹر جہانگیر خان اور شیخ محمد نثار اس ٹیم کے مسلمان کھلاڑی تھے۔ نثار اپنے زمانے کے تیز ترین بائولر تھے اور قائد اعظمؒ ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ نثار نے اپنی یاداشتوں میں قائد اعظم کے خطوط کا ذکر کیا ہے لیکن متحدہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کو پذیرائی نہ ملی۔ لوگوں کی دلچسپی پنٹینگولر ٹورنامنٹ کے فائنل میں زیادہ ہوتی جس میں اکثر مسلمانوں کی ٹیم ہندوئوں کو شکست دیتی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس مذہبی بنیادوں پر ہونے والے ان میچوں کی مخالفت کرتی تھی اور مہاتما گاندھی نے یہ ٹورنامنٹ رکوانے کی عملی کوششیں کیں کیونکہ مسلمان اقلیت ان میچوں کے ذریعہ اپنی علیحدہ شناخت اجاگر کرنے میں کامیاب رہتی۔پاکستان بننے کے بعد کرکٹ، ہاکی اورا سکواش نے عالمی سطح پر پاکستان کو پہچان دی آج پاکستان میں ہاکی اورا سکواش کا برا حال ہے اورکرکٹ پر کئی حملے ہوچکے ہیں۔
پی ایس ایل نے پاکستانی کرکٹ کو دوبارہ زندہ کرنے کے علاوہ پاکستان کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں لاہور اور کراچی کے کھلاڑیوں نے کوئٹہ کی نمائندگی کی اور پشاور نے اسلام آباد کو شکست دے کر ثابت کیا کہ زلمے کے ساتھ کسی کا ظلم نہیں چلے گا۔ پی ایس ایل فائنل کو سیاست سے دور رکھا جاتا تو بہتر تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنے کارکنوں کو مفت ٹکٹ تقسیم کرکے اور اسٹیڈیم میں اپنی اکثریت کی دھاک بٹھا کر اچھا نہیں کیا کیونکہ یہ ایک سیاسی جماعت کا نہیں پورے پاکستان کا میچ تھا۔
بہرحال پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد پر حکومت پنجاب، رینجرز، فوج اور تمام سیکورٹی اداروں سمیت پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ ان شاءاللہ اگلا فائنل کراچی اس سے اگلا پشاور اور پھر ایک فائنل کوئٹہ میں بھی ہوگا۔ پانچ مارچ کو پی ایس ایل فائنل صرف ایک ٹیم نے نہیں پوری قوم نے جیتا۔ یہ فائنل میچ اسٹیڈیم کے اندر تھا لیکن اصل میچ اسٹیڈیم کے باہر تھا۔ یہ میچ پاکستان کے محافظوں اور پاکستان کے دشمنوں کے درمیان تھا۔ دشمن نے یہ میچ جیتنے کی بہت کوشش کی لیکن خود کش بمبار پاکستانیوں کے اعتماد کو شکست نہ دے سکے۔ اس جیت پر ہم اپنے محافظوں کو مبارکباد دیتے ہیں۔ دشمن برباد اور پاکستان زندہ باد، اسے کہتے ہیں ردالفساد۔

.
تازہ ترین