• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بان‘‘ کی ننگی چارپائی پہ لیٹے لیٹے انہوں نے بازو کو تکیہ بنایا اور پانسہ پلٹ کر چہرہ میری طرف کر لیا۔خاموشی کو توڑتے ہوئے کہنے لگے سوچتے کیا ہو اور متفکر کیوں ہو؟ فکر پڑھے لکھے لوگوں کا مرض ہے۔خواہ مخواہ پریشان رہتے ہیں۔قدرت کا ایک نظام ہے جس میں تم نہ دخل کر سکتے ہو نہ اسے سمجھ سکتے ہو۔پھر فکرمند ہونے کا کیا فائدہ؟بابا تم خاموشی اور صبر سے قدرت کے فیصلے دیکھتے جائو، جتنا سمجھ میں آئے اتنا ہی کافی ہے ۔جو سمجھ میں نہ آئے اس سے متفکر اور پریشان نہ ہوں۔میں فکر وپریشانی مرض اس لئے کہتا ہوں کہ اس سے جسم میں کوئی نہ کوئی مرض لگ جاتا ہے ۔یہ دنیاداری میں سر تک ڈوبے ہوئے لوگوں کا مسئلہ ہے اپنے رب کی قدرت پر یقین رکھنے والے فکرمندی، پریشانی اور حالات کی تنگی سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ وہ رب کی رضا پر راضی رہنا سیکھ جاتے ہیں۔بابا تم خاموشی سے بدلتے حالات دیکھتے جائو اور میری بات یاد رکھو کہ آہستہ آہستہ اہل اقتدار کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔بہت سے لوگ ذلیل وخوار ہوں گے اور کئی نئے چہرے عزت پائیں گے۔ذلیل وخوار وہ ہوں گے جو اقتدار کی راہداریوں میں گردنیں اکڑائے چل رہے ہیں اور ان کا تکبر،ان کا غرور زمین پہ بوجھ بن گیا ہے ۔بابا تکبر صرف اللہ پاک کی شان ہے ۔تکبر صرف اسے جائز اور زیب دیتا ہے جسے کبھی موت نہیں آنی، جو ابد سے لیکر ابد تک زندہ رہے گا۔جسے موت آنی ہے اور جس نے ایک دن مٹی کے ساتھ مٹی ہو جانا ہے اسے تکبر زیب نہیں دیتا، وہ کیونکر اور کس چیز پر غرور کرے؟ اس کا اقتدار، شان اور اختیار سبھی عارضی ہیں۔عارضی شے پہ تکبر کیا معنی؟بابا یہ لوگ نہیں جانتے کہ متکبر انسان زمین پر بوجھ بن جاتا ہے، اس کے اپنے جسمانی وزن میں تکبر و غرور کا وزن حد درجہ اضافہ کر دیتا ہے ۔وہ جب زمین پہ چلتا ہے تو زمین اس کے وزن سے کراہتی اور احتجاج کرتی ہے ۔وہ نہیں سن سکتا لیکن زمین اس کے ہر قدم پہ اسے پیغام دیتی ہے کہ جس طرح آج تم مجھ پہ بوجھ ہو، اسی طرح میں تم پر ایک دن بوجھ بنوں گی لیکن یاد رکھو کہ تمہیں میرا بوجھ اور وزن یوم حساب تک برداشت کرنا پڑے گا۔میں تو تمہیں چند برس اور برداشت کر لوں گی کہ تم جیسے لاتعداد میرے سینے پر اکڑ اکڑ کر چلتے اور غرور سے بھاری قدم میرے سینے پر مارتے ہیں۔تمہیں اس کا اندازہ تب ہو گا جب تمہارے چاہنے والے ،تمہاری خوشامد کرنے والے اور تمہارے خونی رشتے تمہیں میرے دامن میں بے یارومددگار چھوڑ کر گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔کاش وہ دیکھ سکیں کہ تمہارا وہ جسم جسے تم دن رات مہنگے صابن سے دھوتے اور جس پر قیمتی خوشبوئیں لگاتے تھے اور جسے دن رات تمہارے خوشامدی خوشامد کی مالش سے تروتازہ رکھتے تھے وہ خاک میں لتھڑا پڑا ہے اس پر حشرات الارض کیڑے مکوڑے یوں آزادی سے ٹہل رہے ہیں جس طرح کبھی تم زمین پر ٹہلتے تھے ۔
وہ ایک دم پانسہ پلٹ کر سیدھے ہو گئے اور آسمان پر نظریں گاڑ دیں۔کہنے لگے بابا کچھ عجیب وغریب اور انہونی ہونے والی ہے ۔عجیب سا نقشہ بن رہا ہے میں خود اسے سمجھنے سے قاصر ہوں ۔یہ شوروغوغا جاری رہے گا بس تم اپنے دل کو بالکل صاف رکھو۔دل کے آئینے پر دنیاوی ہوس کی گرد نہ پڑنے دو ۔لوگوں کو معاف کرتے رہو۔اللہ پاک ان کو پسند کرتے ہیں جو دوسروں کو معاف کرتے اور انتقام سے دور رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو معاف کر دیتے ہیں کہ یہ میرے رب کی صفت ہے ۔کوئی تمہیں صدمہ پہنچائے، تمہارے جذبات کو ٹھیس لگائے یا تم سے زیادتی کرے اسے معاف کر دو۔جب تم اسے رضائے الٰہی کے لئے معاف کرو گے تو نظام قدرت خود بخود حرکت میں آئے گا اور ایک نہ ایک دن زیادتی کرنے والے کو سبق سکھائے گا۔اگر تم نے خود انتقام لے لیا تو تم بھی اسی طرح گناہ گار ٹھہرے جس طرح زیادتی، ظلم اور صدمہ پہنچانے والا پھر قدرت سے اجر کی توقع نہ رکھو۔اجر کی توقع وہ رکھیں جو معاملہ قدرت کے سپرد کرتے ہیں۔
بابا یہ قدرت کا نظام بڑا فکرانگیز، وسیع اور تہہ در تہہ ہے۔اللہ پاک کو مانگنے والے ہاتھ پسند ہیں ۔عطا کرنا، جھولی بھرنا اور مرادیں پوری کرنا میرے رب کی صفت ہے ۔جو لوگ رب کی عطا اور تقسیم پہ راضی رہتے ہیں انہیں قلبی سکون ملتا ہے ۔جو رب کی تقسیم پر ناخوش ہوتے ہیں وہ حسد میں مبتلا ہو کر قلب و ذہن کو بیمار کر لیتے ہیں ۔جھولی پھیلانا، ہاتھ اٹھانا اور مانگنا انسان کی فطرت ہے ۔اس سے انسان کو تھوڑی سی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔سچ یہ ہے کہ مانگنے سے رب سے رشتہ اور تعلق پروان چڑھتا ہے لیکن بابا تم نہ مانگا کرو۔اللہ پاک دلوں کے بھید جانتے ہیں اور اللہ پاک کو سب علم ہے کہ تم بن مانگے کیا چاہتے ہو۔یہ بھی قدرت کا ایک عجیب بھید ہے کہ اکثر اوقات بن مانگے جلد ملتا اور جلد عطا ہوتا ہے ۔بابا یہ بھی قدرت کا ایک بھید ہے کہ اس نے مانگنے والے سے نہ مانگنے والے کا درجہ بلند رکھا ہے ۔یہی توکل ہے بابا بن مانگے اللہ پاک کی نعمتوں پر یقین رکھنا اور صبرو شکر کا دامن تھامے رکھنا ہی توکل کہلاتا ہے۔ تو کل کا درجہ عطا سے کہیں بلند ہے۔صبر شکر انسان کا قیمتی ترین اثاثہ اور مومن کا موثر ترین ہتھیار ہے ۔جو لوگ صبروشکر سے لیس ہوتے ہیں انہیں کبھی شکست نہیں ہوتی۔ ہارتے وہ ہیں اور زندگی سے شکست وہ کھاتے ہیں جو صبروشکر سے محروم ہوتے ہیں ۔تم صبرو شکر کے مقام کا اندازہ نہیں کر سکتے۔بابا ذرا سوچو کہ صابروں اور شاکروں کی حفاظت خود اللہ پاک کرتے ہیں اور جن کی حفاظت کا ذمہ اللہ پاک لے لیں وہ کیسے شکست کھا سکتے ہیں ان کی بظاہر شکست بھی دراصل فتح اور فتح مبین ہوتی ہے ۔



.
تازہ ترین