• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان کے بعد ایمپریل سول سروس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔بھارت میں خدمات سرانجام دینے والوں کو انڈین سول سروس جبکہ پاکستان آنے والے افسروں کو سول سروس پاکستان سے منسوب کیا جانے لگا۔گزشتہ 70سالوں کے دوران وطن عزیز میں سول سروس کے ڈھانچے کو ہر دور میں ہلانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ہمسایہ ملک بھارت میں آج بھی سول سروس کا بنیادی ڈھانچہ وہی ہے ،جو 1912میں اس کے قیام کے وقت تھا۔فوجی آمر ایوب خان اور یحیٰی خان نے ریفارمز کے نام پر کئی سول افسران کو گھر بھی بھیجا مگر بہتری کے بجائے معاملہ مزید خرابی کی طرف چلا گیا۔بھٹو صاحب نے ریفارمز کی بات کی تو 12سروس گروپ متعارف کردئیے گئے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو ڈی ایم جی گروپ کی زینت بنا دیا گیا۔پہلے کامن کا آغاز کیا گیا،جو آج 44ویں کامن تک پہنچ چکا ہے۔سول سروس میں آنے والے افسران اس نیت کے ساتھ آتے تھے کہ حالات و واقعات جو بھی ہوں ،انہوں نے گریڈ21تک تو جانا ہی جانا ہے۔خاص طور پر پولیس سروس،فارن سروس اور پی اے ایس کے افسران اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سروس میں آنے کے بعد گریڈ 21میں پہنچنے سے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار سنبھالاتو ڈی ایم جی سروس گروپ میں خدمات سر انجام دینے والوں کے لئے ایک بار پھر پی اے ایس گروپ وجود میں آگیا۔ترقی کے لئے ایمانداری کو شرط اول بنانے کے فارمولے پر کام شروع کیا گیا۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بھی فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیوں کے لئے نیا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔جسے ماتحت عدالتوں نے کالعدم بھی قرار دیا۔آج ایک بار پھر گریڈ 20اور21کے لئے ہونے والے پروموشن بورڈ کے فیصلوں کو وزیراعظم ہاؤس نے واپس بھیج دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ 94افسران کی ترقیوں کی سفارشات کو مسترد کیا گیا ہے۔جبکہ وفاقی پبلک سروس کمیشن کے سربراہ سے وضاحت بھی مانگی گئی ہے کہ ان افسران کو کیسے پروموٹ کردیا گیا؟
ایف پی ایس سی کا سربراہ ترقیوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے اہم ترین افسر ہوتا ہے۔ایک ایسا افسر جس پر وفاقی حکومت اعتماد کرکے حساس ترین ذمہ داری تفویض کرتی ہے۔اس کے علاوہ پروموشن بورڈ کے ممبران میں کچھ مستقل ممبر ہوتے ہیں اور کچھ باہر سے بلائے جاتے ہیں۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن حکومت کے اپنے لگائے گئے افسر ہوتے ہیں۔جو بورڈ کے مستقبل ممبر ہوتے ہیں۔جبکہ چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز بھی بورڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔پارلیمنٹ سے بھی نمائندگی لی جاتی ہے۔ایسا بورڈ جب افسران کو ترقی دے کر سفارشات وزیراعظم کو بھیجتا ہے تو پھر اس میں ردو بدل ہونا بورڈ کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اگر یہ افسر معیار پر پورا نہیں اترتے تھے تو حکومت کے اپنے لگائے گئے چیئرمین اور قابل اعتماد ممبران نے انہیں ترقی کیسے دے دی؟دو باتیں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ چیئرمین ایف پی ایس سی،سیکرٹری کیبنٹ اور اسٹیبلشمنٹ غلط افسر ہیں یا پھر وزیراعظم ہاؤس کا فیصلہ غلط ہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سینئر ترین پروموشن بورڈ کی ایک دو نہیں بلکہ 94سفارشات کو نظر انداز کیا گیاہے۔اگر ایمانداری شرط اول ہے تو بورڈ کے ممبران پہلے اس سے غافل کیوں تھے اور ایسی کونسی وجوہا ت تھیں کہ بورڈ نے ان افسران کو پروموٹ کردیا اور وزیراعظم نے فوری نظر انداز کردیا۔کیونکہ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم کے قریبی بیوروکریٹس کے بیٹے اور سیکرٹری ٹو وزیراعظم کے قریبی دوستوں کے نام بھی بورڈ نے بھیجے مگر وزیراعظم ہاؤس نے مسترد کردیا۔ایک افسر جو کیبنٹ ڈویژن میں جوائنٹ سیکرٹر ی ہیں۔پیپلز پارٹی کے قریبی تصور کئے جاتے ہیں۔ملتان میں کمشنر اور ڈی سی بھی رہ چکے ہیں۔ان کی پروموشن کے حوالے سے بورڈ کو ہدایت کی گئی تھی کہ انہیں اگلے سال کی اے سی آر آنے تک پروموٹ نہ کیا جائے۔جب ہدایت ملی تو پروموشن بورڈ کا آئندہ اجلاس ہوتے ہوتے ایک سال گزر گیا۔جب ان کا نام بورڈ کے سامنے آیاتو ان کی اے سی آر پر OutStandingلکھا ہوا تھا۔Integrityکے خانے میں بھیVery Goodدرج تھا۔جس شخص نے ان کی اے سی آر پر سائن کئے تھے،وہ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن تھے،جو بورڈ میں بطور مستقل ممبر کی حیثیت سے موجود تھے۔انہوں نے بورڈ ممبران کے سامنے تصدیق کی کہ یہ بہت قابل اور اعلیٰ افسر ہیں۔کسی ممبر نے اعتراض اٹھایا کہ اس افسر کا ایک کیس نیب میں زیرالتوا ہے۔جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بینک آف پنجاب کے سابق صدر کو ملک سے فرار کروایا تھا۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ فون اٹھا کر کمرے سے باہر چلے گئے اور چند منٹ بعد آکر کہنے لگے کہ میری چیئرمین نیب سے بات ہوگئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہماری طرف سے یہ افسر بری الذمہ ہے۔اس کا کوئی کیس نیب میں نہیں ہے۔یوں تمام ممبران نے متفقہ رائے سے اسے پروموٹ کرکے سفارش وزیراعظم کو بھجوادی۔مگر ہوا یہ کہ جب وزیراعظم ہاؤس کو سفارشات موصول ہوئیں تو وزیراعظم نے ڈی جی آئی بی پر مشتمل سینئر افسران کی ایک کمیٹی بنائی۔جس کو ذمہ داری دی گئی کہ تمام پروموٹ ہونے والے افسران کی تفصیلی انکوائری کرکے دے۔آئی بی نے 62صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ وزیراعظم کو جمع کروائی۔جس کی زد میں وزیراعظم اور ان کے اسٹاف کے قریبی دوست بیوروکریٹس بھی آگئے۔مگر وزیراعظم نے کہا کہ اصول سب کے لئے برابر ہے۔اس لئے آئی بی کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے من و عن عمل کیا جائے۔
پروموشن بورڈ کی سفارشات مسترد ہونے کے بعد پورے ملک میں شدید ردعمل آیا کہ وزیراعظم نوازشریف نے یہ سب کچھ اپنے قریبی بیوروکریٹس کے مشورے پر کیا ہے۔ہمیشہ کی طرح وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کوہدف تنقید بنایا گیا۔مگر حالیہ افسران کی ترقی اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے مسترد ہونے والے ناموں کو دیکھ کر یہ تو یقین ہوگیا ہے کہ فواد حسن فواد ایک ایماندار آدمی ہے۔کیونکہ کرپٹ آدمی کبھی بھی کرپٹ بندے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔بااصول اور مضبوط کردار کا حامل شخص ہی برائی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک بات تو طے ہوئی ہے کہ فواد حسن فواد کی شہرت پر انگلی اٹھانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔جس نے اپنے قریبی جاننے والے بیوروکریٹس کی آئی بی رپورٹ خراب آنے پر ترقی کی سفارش نہیں کی تو اور اس کی ساکھ پر کیا لکھوں؟ مگر ایک اعتراض ضرور ہے اگر پروموشن بورڈ کی سفارشات اس حد تک غلط ہوسکتی ہیںتو پھر اس بورڈ کا فائدہ کیا ہے؟ کیا آئی بی کی جو رپورٹ بعد میں تیار ہوئی۔وہ پہلے ہی بورڈ کے ممبران کو نہیں بھجوائی جاسکتی تھی۔اس لئے آئندہ ایسی کسی ہزیمت سے بچنے کے لئے ٹھوس اور معیاری طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین