• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہولی کے کھلتے رنگ دیکھ کر ہمارے وزیر اعظم صاحب کے دل کا گلاب بھی کھل اٹھا اور ا ن کے اداس چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ محمد رفیع کا مشہور گانا’’بہارو پھول برسائو، میرا محبوب آیا ہے‘‘ سن کر وزیر اعظم صاحب کو اپنا لڑکپن اور جوانی یاد آگئی جب دوستوں کے حلقے میں ان کے سریلے مدھر گانوں کی بڑی دھوم تھی۔ وزیر اعظم صاحب نے خود اپنی شخصیت کے اس پہلو سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ آج سے دس برس قبل میں یہ گانا رفیع مرحوم سے بھی زیادہ رسیلی آواز میں گا سکتا تھا۔ دس سال قبل تو وہ جدہ میں تھے اس لئے مجھے علم نہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو کبھی کبھی اپنے دیرینہ دوست سجاد شاہ کے ساتھ مل کر تنہائی میں گانا گایا کرتے تھے اور سننے والے آواز کے جادو میں کھو جاتے تھے۔ سجاد شاہ لندن کے شہری ہیں اس لئے پاکستان کبھی کبھی ہی آیا کرتے تھے۔ گانا وزیر اعظم صاحب کی تفریح طبع Relaxationہے اور لطیفے سننا اور سنانا ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ لطیفے سنانے کا عالمی مقابلہ آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ یہ غالباً 1988کا واقعہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب مراکش کے سرکاری دورے پر گئے۔ میں بھی ان کے سرکاری وفد میں شامل تھا۔ اس دورے میں مراکش کے شہر فض(FEZ)کو لاہور سے جڑواں شہر قرار دیا جانا تھا اور دونوں شہروں کے لارڈ میئرز نے شہروں کی کنجیوں کا تبادلہ کرنا تھا اس لئے لاہور کے اس زمانے کے میئر میاں محمد اظہر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ بہت سے لوگوں کی مانند میاں اظہر آج کل سیاسی عجائب گھر کا حصہ بن چکے ہیں۔ مراکش کے دارالحکومت سے فض جانا تھا۔ میاں صاحب کی گاڑی میں سفیر کے علاوہ تیسرا مسا فر میں تھا۔ جب ہم رباط سے باہرنکلے تو میاں صاحب نے کہا ڈاکٹر صاحب کوئی لطیفہ سنائیے۔ میرا لطیفوں کاا سٹاک کوئی تین عدد لطائف پر مشتمل تھا، چنانچہ میں پانچ منٹوں میں لطیفے سنا کر فارغ ہوگیا۔ باقی ماندہ دو گھنٹوں کے سفر میں میاں صاحب لطیفے سناتے رہے حتیٰ کہ ہم فض پہنچ گئے اور ابھی ان کے لطیفوں کا خزانہ ختم نہیں ہوا تھا۔
کئی برس قبل میاں صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا اگر وہ سیاستدان نہ بنتے تو کرکٹ کے کھلاڑی بنتے۔ بلاشبہ انہیں کرکٹ سے محبت ہے اور واحد کرکٹر سیاستدان عمران خان ان کا رقیب ہے۔ انہی تین خصوصیات کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو وزیر اعظم صاحب کی خوش مزاجی اور بذلہ سنجی سمجھ میں آجائے گی۔ یعنی ان کی بذلہ سنجی کا راز، میوزک، لطیفوں اور کرکٹ میں پنہاں ہے۔ سیاست تو حالات کا جبر تھا جسے انہوں نے قبول کیا اور پھر اسے یوں نبھایا کہ دوبار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن کر اور تین بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو کر ایک ایسا ریکارڈ قائم کردیا جسے مستقبل میں مات دینا تقریباً ناممکن ہوگا، اگرچہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لئے پر تول رہے ہیں لیکن مستقبل کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، البتہ اس باراگر وہ صدر مملکت بن جائیں تو یہ نیا عالمی ریکارڈ ہوگا۔ ہمارے ایک شوقیہ ستارہ شناس دوست کہا کرتے تھے کہ میاں نواز شریف مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں۔ وہ گانے کے میدان کا انتخاب کرتے تو رفیع کو پیچھے چھوڑ دیتے، کرکٹ کے میدان میں جم کر کھیلتے تو عالمی سطح پر نام کماتے۔ سیاست میں آئے ہیں تو قسمت اور مقدر نے ان کا ہر قدم پر ساتھ دیا ہے، ورنہ ایک غیر سیاسی اور صنعت کار خاندان سے اٹھ کر سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جانا اور پھر اتنا ووٹ بینک بنالینا کہ دوسری بار وزیر اعلیٰ اور پھر تین بار وزیر اعظم منتخب ہوجانا ایک کرامت سے کم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قسمت اور مقدر انسانی زندگی میں حددرجہ اہم اور فیصلہ کن رول سرانجام دیتا ہے۔ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ مقدر کے بعض شعبوں پر تو انسان کو بالکل اختیار نہیں لیکن بہت سے بلکہ اکثر شعبوں پر انسان کو کلی اختیار حاصل ہے اور ان میں سنگار یا بگاڑ کا خود انسان ذمہ دار ہوتا ہے۔ زندگی، موت کے علاوہ اقتدار، دولت اور شہرت بھی اللہ پاک کی دین ہیں البتہ اپنے ا عمال کے لئے انسان خود جوابدہ ہے۔ مقدر کا پتہ چلتا ہے جب انسان کسی کڑی آزمائش کی جکڑ میں ہو۔ ایک طرف میاں صاحب نے جس طرح تیزی سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھیں اور اپنے حریفوں کو گراتے چلے گئے وہ ایک طرح سے ان کے مقدر کا کرشمہ تھا لیکن جس طرح کی غیر اصولی، مفادات و مصلحت کی سیاست کو انہوں نے پروان چڑھایا وہ ان کا ذاتی کارنامہ ہے،وہ چاہتے تو پاکستان میں اصولوں کی سیاست کو بھی فروغ دے سکتے تھے۔ ان کی زندگی کی سب سے کڑی آزمائش مشرف کا مارشل لاء تھا۔ مشرف ان کی زندگی کے درپے تھا اور انہیں عدالت سے سزائے موت بھی دلوادی تھی لیکن بالآخر اسے میاں صاحب کی جلاوطنی سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی مانند یہ جلا وطنی میاں صاحب کی اپنی چوائس نہیں تھی بلکہ حالات کا جبر تھا اور موت کے منہ سے نکلنے کا ایک راستہ تھا جو ان کے مقدر نے ان کے لئے بنایا تھا۔ عالمی سیاست کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو راز کھلے گا کہ سیاسی جلا وطن بہت کم تعداد میں وطن اور اقتدار کی طرف لوٹ سکے، ورنہ ان کی بہت بڑی اکثریت جلا وطنی میں ہی گمنامی کی موت مرگئی۔ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ہوں، ایران کے شاہ ہوں یا یوگنڈا کے ایدی امین یا افغانستان کے ظاہر شاہ یا پاکستان کے سابق صدرا سکندر مرزا اور ان جیسے بہت سے، کوئی بھی واپس لوٹ سکا نہ دوبارہ اقتدار حاصل کرسکا۔ گویا زندگی کی کڑی ترین آزمائش میں مقدر نے میاں صاحب کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ سرخرو بھی کیا۔
آج کل وہ پاناما کی آزمائش میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مقدر ہر بار کام نہیں آتا کبھی کبھی مکافات عمل مقدر کو پیچھے دھکیل دیتا ہے اور اعمال کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ یہی قانون قدرت ہے لیکن یاد رکھئیے کہ صرف عروج اور کامیابیاں ہی مقدر کا حصہ نہیں ہوتیں، زوال اور ناکامیاں بھی مقدر ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں اور عام طور پر انسان اپنی راہ میں خود ہی گڑھے کھودتا اور خود ہی اپنے لئے پھندے تیار کرتا ہے۔ اس صورت میں مقدر کو نہیں بلکہ اعمال کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے۔ اس سے زیادہ نہ ہی لکھوں تو بہتر ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔

.
تازہ ترین