• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے جدا اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں، مگر انہوں نے حالات کے نازک ترین دوراہے پر جس قوتِ ایمانی اور بے پناہ عوام دوستی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی بدولت وہ تابندہ علامتوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ سوشل میڈیا جس کا آزادیٔ اظہار کے سب سے جدید اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ میں شمار ہوتا ہے، وہ عام بیداری اور آگہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ شرانگیزی کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل اِس کی فتنہ انگیزی میں غیر معمولی اضافہ ہوا جب بعض نامعلوم اور بدبخت لوگوں نے سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی شان میں بہت گستاخانہ کلمات پوسٹ کیے جن کے خلاف پورے پاکستان میں ایک خاموش احتجاج منظم ہوتا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری آنکھیں روح کو پگھلا دینے والے ان الفاظ کو پڑھنے سے محفوظ رہیں، مگر وہ جن جن کی نظر سے گزرے، ان کے تن بدن میں آگ لگتی گئی اور دلوں کے اندر ہنگامے اُٹھنے لگے۔ مذہبی تنظیمیں حرکت میں آئیں اور اُن کی طرف سے مطالبات ہونے لگے کہ فیس بک بلاک کی جائے اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اِس معاملے میں حکومت نے خاموشی اختیار کیے رکھی کہ اِسے بیک وقت کئی دریاؤں کا سامنا تھا۔ بدقسمتی سے بعض حلقے یہ بھی کہتے سنے گئے کہ بہت زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ مجرموں کا سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں۔ مسلمان جو حرمتِ رسولؐ پر کٹ مرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں، ان کے مذہبی جذبات برافروختہ ہوتے جا رہے تھے جو ایک طوفان کو جنم دینے لگے تھے۔ حالات میں ایک نازک موڑ آ پہنچا تھا۔
ایسے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے روبرو یہ معاملہ آیا، تو اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بعض بدبختوں نے اُن کی اِس ایمانی کیفیت کا مذاق اُڑایا، مگر وہ اہلِ دنیا کی تیراندازی کے باوجود پورے ثبات اور استقامت کے ساتھ اِس معاملے کے تمام پہلوؤں کا عدالتی جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کے ذمہ دار افراد طلب کر لیے اور انہیں مجرموں کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپ دیا۔ مقدمے کی روزانہ سماعت ہونے لگی۔ ایک موقع پر فاضل جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ ایک ایسا فیصلہ سنائیں گے اور ایسے عملی اقدامات کی نشان دہی کریں گے جن کو عملی جامہ پہنانے سے کسی بھی بدبخت کو رسولِ اقدس حضرت محمد ﷺ کی توہین کرنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ اُن کی باڈی لینگوئج سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اُن کا سینہ عشقِ رسولؐ سے پوری طرح منور ہے اور وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ پورے عدل کے ساتھ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ آبزرویشن بھی دی کہ کسی بے گناہ فرد کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ بنانا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جس قدر جرم حضرت محمد ﷺ کی اہانت کا ہے۔ اُن کی اِس عزیمت کی بدولت آخرکار حکومت کو صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا اور وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کراچی میں پالیسی بیان دیا کہ ہم توہینِ رسالت کے قانون میں کوئی ترمیم کریں گے نہ مجرموں کو عبرت ناک سزاؤں سے بچ جانے کا موقع دیں گے۔ انہوں نے وزارتِ داخلہ کو احکام صادر کیے کہ وہ مجرموں کا سراغ لگانے میں پوری فرض شناسی کا ثبوت دے اور تمام متعلقہ اداروں کو بروئے کار لا کر شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا انتظام کرے۔ اُن کی وزارتِ خارجہ کے لیے ہدایات یہ تھیں کہ وہ غیر ملکی کمپنیاں جو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ کے معاملات چلاتی ہیں، اُن سے رابطہ کر کے یہ بات سمجھائی جائے کہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری سے عالمی امن بھی بری طرح متاثر ہو گا اور نفرتوں کا بازار بھی گرم ہو گا۔ وزیراعظم کے اس حوصلہ افزا بیان آ جانے کے بعد یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺکے گستاخ پکڑے جائیں گے اور اہلِ مغرب کو بھی یہ سخت پیغام پہنچ جائے گا کہ انہیں آزادیٔ اظہار کی حدود متعین کرنا پڑیں گی۔
سوشل میڈیا کو اخلاقی حدود میں رکھنے کے لیے حکومت اور عوام کو ہر آن مستعد رہنا ہو گا۔ حال ہی میں سائبرکرائم بل منظور ہوا ہے، مگر جرائم کی فہرست میں توہینِ رسالت شامل نہیں۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اسی طرح ہمارے اہلِ دانش کو بڑی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اُن میں سے بعض لوگ توہینِ رسالت کا قانون ختم کرنے کی مہم چلاتے رہتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اِس کی آڑ میں اقلیتوں پر بڑا تشدد کیا جاتا ہے اور بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے جاتے ہیں۔ اِس کا صحیح تدارک یہ ہے کہ توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات بنانے والوں کے لیے بھی قانون میں وہی سزا رکھی جائے جو توہین ِرسالت کے مرتکب ہونے والے کے لیے ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسمِ محمد ﷺ کا بول بالا ہر سُو ہو رہا ہے اور بیس پچیس سال بعد وہ زمانہ آنے والا ہے جب یورپ کا پہلا مذہب اسلام ہو گا اور مسلمانوں کی آبادی دس فی صد سے تجاوز کر جائے گی۔ اہلِ مغرب کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اسمِ محمد ﷺ کا احترام کریں اور مسلمانوں کے جذبات کا خاص خیال رکھیں کہ اب تہذیبوں کے ملاپ ہی پر عالمی امن کا انحصار ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سالہا سال سے گندگی کے ڈھیر بہت ساری مصیبتوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ کراچی کے میئر جناب وسیم اختر ایم کیو ایم سے منتخب ہوئے، تو انہوں نے اعلان کیا کہ سو دنوں میں کچرے کے تمام انبار ختم ہو جائیں گے، مگر غالباً اختیارات کی کمی یا ارادے میں کمزوری واقع ہونے سے گندگی کے ڈھیروں میں اضافہ ہوتا گیا۔ پچھلے چند ہفتوں سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین الزام تراشی کی جنگ بہت شدت اختیار کر گئی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ ایک بہت بڑا تصادم ہونے والا ہے۔ ایسے میں نامور بزنس مین جناب ملک ریاض حسین میدان میں اُترے اور انہوں نے شہریانِ کراچی کی خیرخواہی میں اعلان کیا کہ وہ اپنے وسائل سے کراچی کو کچرے سے صاف کر دیں گے۔ ملک ریاض صاحب نے پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹی کا ایک جدید تصور دیا ہے جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپنے ملک کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اہلِ کراچی پر جو احسان کیا ہے، اِس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔ اُن کے اِس قدم سے دوسرے ڈویلپرز کو بھی اِسی نوعیت کی قومی خدمت بجا لانے کا احساس پیدا ہو گا۔ ملک صاحب دریا دلی اور فیاضی کی علامت بن گئے ہیں اور حاجت مندوں کے کام آتے رہتے ہیں۔

.
تازہ ترین