• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کی عمر کچھ ایسی کم بھی نہیں تھی یعنی یہی کوئی 72,70 سال مگر اس کے سینے میں ایک 18سالہ نوجوان کا دل دھڑکتا تھا۔ وہ بہت زندہ دل مگر بہت دردمند بھی تھا۔ وہ دوستوں کی محفلوں میں ایسے قہقہے لگاتا جیسے الہ دین کے چراغ کا روایتی جن دھوئیں میں سے نمودارہوتے ہوئے لگاتا ہے۔ اسے اپنا کوئی ذاتی غم نہیں تھا جس پر وہ اپنے اللہ تعالیٰ کا شکر دن میں بیسیوئوں مرتبہ کرتا لیکن وہ اپنے اردگرد سسک سسک کر جینے والوں کے ہجوم اور اہل دنیا کی بے حسی دیکھ کر خدا سے شکوہ کناں بھی ہوتا اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے کوشاں رہتا۔ 72,70 برس کی عمر میں بھی اسے کوئی بڑا جسمانی عارضہ لاحق نہیں تھا چنانچہ اس کے دل کی دھڑکن نارمل تھی۔ وہ شوگر، بلڈپریشر، کولیسٹرول اور یورک ایسڈایسی بلائوں سے بھی محفوظ تھا۔ وہ چونکہ ابھی تک ’’اٹھارہ سالہ نوجوان‘‘ کی جذباتی زندگی گزار رہاتھا چنانچہ اپنی اصلی عمر بھول کروہ اپنے گھر کی سیڑھیوں کے دو دو، تین تین اسٹیپ بیک وقت پھلانگنے کی خواہش تو کرتا لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش اس لئے کبھی نہیں کی کیونکہ اپنی ’’بھرپور جوانی‘‘ کے باوجود وہ ایک حقیقت پسند شخص تھا۔
وہ ایک معزز شخص تصور کیاجاتاتھا چنانچہ جب کبھی وہ فلم دیکھنے جاتا اور وہ فلم رش لے رہی ہوتی تو اسے بادل نخواستہ ایک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا حالانکہ اس کادل چاہتا کہ وہ بھی اپنے ’’ہم عمر‘‘دوسرے جوانوں کی طرح قمیص اتار کر قطار میں کھڑے لوگو ں کے سروں پر چھلانگ لگائے اوران پرتیرتاہواکھڑکی تک پہنچے اور پھر ٹکٹ مٹھی میں دبائے اوپر سے چھلانگ لگا دے اور اس کے بعد فاتحانہ انداز میں چلتاہوا سینما میں داخل ہو مگر یہاں بھی اس کی حقیقت پسندی اس کے آڑےآتی۔ کیونکہ ایسا کرنے کی کوشش میں اس کی ایک آدھ ٹانگ ضرور ٹوٹ جاتی اور پھروہ اپنی میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں پڑھی ہوئی کہانی کےکردار لانگ جان سلور کی طرح ساری عمربیساکھی پر ٹک ٹک کرتے ہوئے چلتا۔ البتہ فلم شروع ہونے پر مختلف مناظر کےدوران اسے اپنے جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتامثلاً کسی جذباتی منظر پراگلی صفوں پر بیٹھے ہوئے تماشائی ایک ہاتھ منہ کے قریب لے جا کر بڑھک لگاتے تو اس کا دل خوشی کے مارے سینے سے اچھل کر باہر آجاتا اوروہ بھی ان کی آواز میں اپنی آواز ملانے کی خواہش کرتامگر اس کا معزز ہونا اس کی اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ تھا۔چنانچہ ایسے موقع پر وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتا۔ کبھی کبھارایسا بھی ہوتا کہ اردگرد کا ماحول’’سازگار‘‘ دیکھ کر وہ بھی ایک آدھ زور دار بڑھک لگا دیتا مگرپھراس پر تھوڑی سی شرمندگی بھی طاری ہوجاتی۔ دو ایک مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ اس کی برابر والی سیٹوں میں غلطی سے دوچار ’’شیدے‘‘ معزز بننے کی خواہش میں گیلری کے ٹکٹ خرید کر آبیٹھتے تو وہ حسد بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتا اور خواہش کرتا کہ کم از کم یہی ’’احباب‘‘ انسان کے بے ساختہ جذبوں کا اظہار کرکے گیلری کی طرف سے یہ ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کردیں مگرایسا بہت کم ہوتا کیونکہ ’’شیدوں‘‘ کا ’’معزز‘‘ بننے کا سارا پلان غارت ہو جاتا۔ اسی طرح ہیروئین کے ہنگامہ پرور رقص پر جب اس کی صفوں کے تماشائی اسے ’’ہدیہ تبریک‘‘ پیش کرنے کے لئے اسکرین پرپیسوں کے ’’چھٹے‘‘ مارتے تواس کا دل بھی مچل مچل جاتا مگرافسوس کہ یہ ’’اٹھارہ سالہ نوجوان‘‘ ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا ایک معزز فرد تھا۔ چنانچہ اسے اپنےجذبات کےاس عوامی اظہار کی اجازت نہیں تھی!
یہ نوجوان ’’میلوں ٹھیلوں‘‘ کا بھی شوقین تھا۔ درباروں پر بھی حاضری دیتا۔ وہاں قوالی کی محفلوں میں کئی مرتبہ اس پر وجد طاری ہوا۔ ان لمحوں میں وہ رقص کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کرتا تو اس کےپائوں من من کے ہو جاتے۔ اس کا ’’معزز‘‘ ہمزاد اس کا دامن کھینچ کر اسے واپس اپنی جگہ پر بٹھا دیتا تھا۔ ایسے مواقع پر اس کے اپنے ہمزاد سے بہت بحث بھی ہوتی۔ وہ اس سے پوچھتا ’’کیا میں مولانا روم، بلھے شاہ اورشاہ عبداللطیف بھٹائی سے بھی زیادہ معزز ہوں؟‘‘ 
وہ جواب دیتا ’’وہ صوفی تھے تم دنیادارہو‘‘
وہ کہتا ’’اگر میں دنیا دار ہوں تو چلو مجھے دنیا داری ہی کرنے دو‘‘
جس کے جواب میں اس کا معزز ہمزاد اسے ’’شٹ اپ‘‘کہتا اوروہ سہم کر ’’شٹ اپ‘‘ ہو جاتا!
اسے جلسے جلوسوں سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ وہ ان میں شرکت کرتا لیکن فلک شگاف نعرے لگانے کی حسرت دل میں لئے واپس گھر آجاتا۔ وہ جب دیکھتا کہ کسی مقرر کی شعلہ بیانی کے دوران جلسے میں سے ایک نوجوان کی شیو بڑھی ہوئی ہے اور جو بغیر استری کے کپڑوں میں ملبوس ہے، اتنے جوش کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھتا جیسے اسے کرنٹ لگا ہوااور نعرہ تکبیر بلند کرتا، اسے نعرے کو جس طرح لمبا کرتا ’’نعرہ اے اے اے تکبیر‘‘ وہ اس کے دل کو بہت بھاتا تھا۔ وہ اس کی تقلید کرنا چاہتا لیکن پھر اسے خیال آتا کہ معزز لوگ نعرہ لگانا تو کجا اس کا جواب بھی اگر دیں تو زیادہ سے زیادہ دل میں ہی دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی خواہش کو تھپکیاں دے دے کر سلا دیتا۔ جلوسوں میں بھی دوسرے مظاہرین کی طرح وہ اندھا دھند لاٹھیاں برساتی پولیس پر پتھرائو کرنا چاہتا مگر پتھرائو تو اس نے کیا کرنا تھا یہ معزز شخص پولیس کو آتا دیکھ کر ’’جائے واردات‘‘ ہی سے کھسک جاتاتھا۔ تاہم وہ اس روز بہت بے چین تھا جب 16دسمبر 1971کو سقوط ِ مشرقی پاکستان ہوا۔ چنانچہ وہ گھر سے نکلا مگر اس نے دیکھا کہ سب لوگ پورے اطمینان سے اپنے کاموں میں مشغول ہیں، اسی طرح ہنس کھل رہے ہیں، اہل اقتدار اسی طرح سودے بازیاں کر رہے ہیں، اسی طرح خوشامدیں کر رہے ہیں، اس نے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا مگراسے کوئی جلوس سڑکوں پر نظر نہیں آیا۔ آج وہ زندگی میں پہلی بار اپنی عزت اپنی ہتھیلیوں پر لئے پھر رہا تھا، لیکن اسے اس کا کوئی خریدار نہ ملا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔ اسے راستے میں جو پتھر نظر آتا وہ اسے پوری قوت سے ٹھوکر مار کر اپنا کتھارسز کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا دل اس ٹھوکر سے کہیں بڑا تھا۔
اس کی بیوی بتاتی ہے کہ اس رات اس معزز شخص کو نجانے کیاہوا کہ وہ خواب میں بہت زور دار نعرے لگاتا رہا پھراس نے دیکھا کہ اس کے منہ سے جھاگ بھی بہہ رہی ہے۔ تب اس نےاپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کی ساکن پتلیاں بند کیں اور ایک دلدوز چیخ مار کراپنے بچوں کو اطلاع دی ’’تمہارا باپ مر گیا ہے!‘‘ (قند ِمکرر) 



.
تازہ ترین