• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا ایک دوست ’’خدائی خدمت گار‘‘ قسم کی چیز ہے ہر وقت لوگوں کی خدمت پر کمربستہ رہتا ہے۔چنانچہ اس کی یہ شہرت سن کر وہ لوگ بھی اس کے پاس اپنے مسائل لیکر آ جاتے ہیں جنہیں وہ جانتا ہی نہیں ہوتا۔میرا یہ دوست صاحب اختیار نہیں ہے لیکن صاحب اعتبار ہونے کی وجہ سے وہ اگر متعلقہ افسر تک کسی جان پہچان کے بغیر سائل کا مسئلہ پہنچا دیتا ہے اور یہ مسئلہ کبھی حل ہو جاتا ہے اور کبھی حل نہیں ہو پاتا، جس کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے وہ میرے اس دوست کے لئے خود ’’مسئلہ‘‘ بن جاتا ہے اور جس کا کام نہ ہو سکے وہ یا تو کہتا ہے کہ جناب اگر کام نہیں کرنا تھا تو ٹرخانے کی کیا ضرورت تھی ؟ یا وہ متعلقہ افسر سے مایوس لوٹنے پر سیدھا اس دوست کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے ’’جناب میں تو سمجھتا تھا کہ شہر میں آپ کی عزت ہے مگر آج پتہ چلا کہ شہر میں آپ کی ٹکے کی عزت نہیں، میں بڑے اعتماد کے ساتھ اس افسر کے دفتر میں داخل ہوا کہ میرے پاس آپ کا تعارفی خط تھا، اس نے خط پڑھا ہی نہیں صرف آپ کا نام دیکھ کر اس نے خط کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں اچھال دیئے اور کہا تم یہ کس بیہودہ آدمی کی سفارش لائے ہو، تمہارا کام ہو سکتا تھا مگر اب نہیں ہو گا ،سر اس نے آپ کو ماں بہن کی گالیاں بھی دیں‘‘ میرا یہ دوست اس کی خرافات سن کر ہنستا ہے کہ جانتا ہے کہ وہ یہ کام نہ ہونے کا بدلہ اس افسر کے لئے دل میں نفرت پیدا کرکے لے رہا ہے اور بالواسطہ میری بھی ایسی تیسی کر گیا ہے !
میرے اس دوست کا کہنا ہے کہ جس کسی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے وہ اس کے لئے مستقل مسئلہ یوں بن جاتا ہے کہ ملازمت کے حصول کے بعد وہ ٹرانسفر کے لئے آتا ہے ٹرانسفر کے بعد کرپشن کے الزام میں معطل ہوتا ہے تو کیس ختم کرانے کے لئے آ جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس طرح جاری و ساری رہتا ہے ۔میرا یہ دوست اس حوالے سے ایک بہت مزے کا قصہ سناتا ہے وہ بتاتا ہے کہ ایک اسی طرح کا سائل ایک دفعہ اس سے بہت ناراض ہو گیا، وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’آپ سے دیرینہ دلی تعلق ہے مگر آپ نے آج تک میرے لئے کچھ نہیں کیا‘‘ دوست یہ سن کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی ! اس نے جواب میں وہ سارے کام گنوائے جو اس نے ابھی تک کئے تھے ۔’’سائل ‘‘ یعنی ’’دیرینہ دوست ‘‘ پورے اطمینان سے ان کاموں کے بارے میں سنتا رہا جو اس کے لئے کئے گئے تھے ۔آخر میں بولا ’’آپ نے یہ جتنے کام بھی گنوائے ہیں یہ گزشتہ ہفتے تک کے ہیں آپ یہ بتائیں کہ آپ نے اس ہفتے میرے لئے کیا کیا ہے ؟‘‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میرا یہ دوست اس نوع کی باتوں سے بدمزہ نہیں ہوتا بلکہ انجوائے کرتا ہے ہے اس حوالے سے اس نے ایک اور مزے کی بات بتائی اور وہ یہ کہ انہوں نے ایک صاحب کا کام کیا تو اس کے ساتھ آئے ہوئے اس دوست نے کہا ’’بھئی ان کا شکریہ تو ادا کر دو ‘‘ وہ بولا ’’شکریہ کس بات کا انہوں نے کون سا بطور خاص میرا کام کیا ہے یہ تو سب کا کام کرتے ہیں !‘‘ یہ سن کر مجھے بھی ہنسی آ گئی اور غصہ بھی میں نے کہا ’’تم کیوں ایسے ناشکرگزار لوگوں کے لئے بیسیوں دوسرے لوگوں کے احسانات لیتے رہتے ہو جبکہ تمہیں جوابی طو رپر کسی نہ کسی طرح انہیں یہ احسانات لوٹانے بھی ہوتے ہیں ۔کیا تم نے الیکشن لڑنا ہے ؟ مگر ایسی باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا وہ لا علاج ہے ۔
البتہ میں نے اپنے ایک دوست کو صرف ایک دفعہ غم زدہ دیکھا میں نے وجہ پوچھی تو اس نے ایک مشترکہ دوست کا نام لیا اور کہا وہ آج کل جہاں بیٹھتا ہے مجھے گالیاں دیتا ہے میں نے تو ہمیشہ اس کا بھلا چاہا اور مختلف مواقع پر حسب عادت اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہا ‘‘میں نے کہا ’’کبھی کم ظرف کے ساتھ نیکی نہ کرو، حضرت علی ؓ کا قول یاد رکھو کہ جب تم کسی گھٹیا شخص کے ساتھ نیکی کرو تو اس کے شر کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائو ۔میں نے اسے منیر نیازی کا یہ قول بھی سنایا کہ حضرت عیسیؑ جن مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ زندہ ہونے کے بعد ان کے بیری ہو جاتے تھے میں نے اپنا ایک ’’قول فیصل‘‘ بھی دہرایا کہ برادر جب تم کسی گھٹیاشخص سے تعلقات بڑھاتے ہو تو اس کی نظروں سے گر جاتے ہو، وہ سوچتا ہے کہ جو شخص میرا دوست ہے وہ معزز کیسے ہو سکتا ہے ؟ میری ان باتوں سے دوست کی کچھ ڈھارس بندھی، پھر میں نے اس کی دل گرفتگی کو کم کرنے اور اس کے ساتھ اس کے چہرے کی مسکراہٹ کی واپسی کے لئے احمد ندیم قاسمی کا سنایا ہوا یہ واقعہ بھی سنایا کہ ان کے گائوں سے کچھ لوگ اپنے کسی کام کے لئے ان کے پاس آئے قاسمی صاحب نے متعلقہ افسر کے نام خط دیا اور ان کا کام ہوگیا ۔گائوں واپسی پر انہوں نے شکریہ کا خط لکھتے ہوئے سوچا کہ ایک بڑے ادیب کو خط جا رہا ہے لہٰذا اس میں کچھ موٹے موٹے لفظ ڈالنا چاہئے چنانچہ انہوں نے لکھا ’’محترم قاسمی صاحب آ پ کی مہربانیوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہمارا کام ہو گیا ہے .......‘‘یہ واقعہ سن کر میں نے اپنے اس دوست سے کہا ’’میں تمہیں نیک کاموں سے منع تو نہیں کرتا لیکن ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک تو نہ کرو، اچھے برے کی پہچان کر لیا کرو‘‘ یہ سن کر اس نے قہقہہ لگایا اس کا مطلب تھا ’’اے میرے پیارے دوست! میں لاعلاج ہوں‘‘

.
تازہ ترین