• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ان لوگوں میں ہوں جو ہندوستان کے ساتھ بہترین تعلقات چاہتے ہیں، میں باہمی تجارت کے حق میں ہوں اور ویزے میں نرمی کا بھی حامی ہوں۔ میرے نزدیک ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی صورت میں رہنے کے نتیجے میں دونوں ملک ترقی کریں گے۔ عوام کو خوشحالی نصیب ہو گی، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ، اولین ترجیح کے طور پر ایجنڈے میں رکھا جائے، میاں نواز شریف اور واجپائی کے مابین اس حوالے سے بہت قابل قدر پیش رفت ہوئی تھی مگر وہ سبوتاژ کر دی گئی۔ ہندوستان میں انتہا پسند گروپ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں بلکہ قیام پاکستان کا محرک یہی برہمن ذہنیت تھی خدا کا شکر ہے کہ ہم اسی ذہنیت کے طفیل استحصالی طبقے کے شکنجے سے آزاد ہوئے، مگر ہندوستان کی انتہا پسندی اب آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ ہندوستانی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرانے والا نریندر مودی وزیراعظم یونہی نہیں بنا اور اب یو پی میں اس کی جماعت ایسے ہی الیکشن نہیں جیتی بلکہ ہم لوگ جو ازراہِ مصلحت کہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت تو لبرل ذہن کی ہے مگر ایک محدود گروپ انتہا پسند نظریات کا حامل ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ہندوستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت نے نریندر مودی کی مسلم کش پالیسیوں پر مہر تصدیق ثبت کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اصل میں سارے ایک ہیں، البتہ دانشوروں اور عوام میں عقل سلیم رکھنے والا ایک طبقہ بہرحال موجود ہے جو اس جاہلانہ اور ظالمانہ سوچ کو خود ہندوستان کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے، مگر نقار خانے میں اس طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔
میں جب سوشل میڈیا پر گندی ذہنیت رکھنے والے اس طبقے کے سیاست دانوں کی ویڈیوز دیکھتا ہوں تو عقل نہیں مانتی کہ کسی ملک میں یہ باتیں سرعام کہی جا سکتی ہیں، مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کی تلقین کی جا سکتی ہے؟ لوگوں کو مسلمانوں کے قتل پر اکسایا جا سکتا ہے اور ایسی باتیں کوئی عام لوگ نہیں صوبوں کے وزراء اور وزرائے اعلیٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک دفاعی تجزیہ کار سی پیک منصوبے کو پاکستان کے لئے بہترین سمجھتے ہوئے اس منصوبے کے بارے میں کنفیوژن پھیلانے کے حق میں ہے اور وہ پاکستان کو توڑنے کی ’’ضرورت‘‘ پر زور دیتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ آرمی چیف بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں کھلم کھلا یہ بات کہتا ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے وہ جہاں کچھ تجاویز پیش کرتا ہے وہاں اس امر پر بھگوان کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے انہیں بہت سے ’’پاکستانیوں‘‘ کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اور یہ سب بکواس ہوائی نہیں ہے بلکہ اس پر مسلسل کام بھی ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے، جو افغانستان سے آپریٹ ہوتا ہے، پاکستان اس کے ثبوت بھی پیش کر چکا ہے۔ ہندوستان سرحدی جھڑپوں کے ذریعے غالباً مکمل جنگ کی خواہش تو نہیں رکھتا کہ جانتا ہےاس کا انجام کیا ہو گا۔ چنانچہ ہمیں بھی جنگ کی طرف جانے کا نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ دونوں کے لئے تباہ کن ہے البتہ دنیا کو ہندوستان کے مذموم عزائم کے حوالے سے بہت وسیع اور موثر انداز میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہماری اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ حکومت پر جتنی چاہے تنقید کرے لیکن کوئی ایسی بات نہ کرے جو ریاست پاکستان کے خلاف جاتی ہو۔ مجھے یہ بات کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ گزشتہ دنوں شیخ رشید نے سی پیک دشمنی کی وجہ سے ہمارے برادر ملک چین کے بارے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی۔ بھائی، خدا کے لئے ایسا نہ کرو۔ ایسی باتوں کے نتیجے میں تو حکومت میں کیا آئو گے ایک آدھ دفعہ مزید اسی طرح کی ہدیانی گفتگو کی، تو شاید کسی ٹیلی وژن پر بھی نہ آ سکو۔ شیخ صاحب ٹی وی اسکرین آپ کی زندگی ہے۔ اپنی زندگی کی حفاظت کریں۔

.
تازہ ترین