• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سکندر اعظم سے ’مقدونیہ‘ اور اشوکا دی گریٹ کے ساتھ جس طرح ’پٹنہ ‘ منسوب ہیں۔اسی طرح شریف برادران کی سیاست اور حکومت کو تخت ِلاہور کا نام دیا جاتاہے ۔پنجاب کو پاکستان اور لاہور کو پنجاب کا دل ماناجاتاہے ۔ پنجاب کے شمال مشرق میں واقع لاہور میں گزشتہ 36سال سے میاں برادران کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوالیکن موسم سرما کے جاتے ہی شریفوں سے منسوب اس شہر اور گردونواح میں 6سے 8گھنٹے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا آغاز ہوگیا ہے ۔اس پر سونے پہ سہاگہ خادم اعلیٰ کا بیان ملاحظہ ہو ’’اس سال کے آخر تک وزیر اعظم کی طرف سے 2013کے انتخابات میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کاوعدہ پورا ہوجائے گا،اتنی بجلی پیدا کریںگے مودی کو بھی دے سکیں گے‘‘۔ذرا سوچئے ! ابھی گرمی نے انگڑائی لی ہے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ غریب کی دیہاڑی جیسا پھیل گیاہے ،پنجاب میں ابھی تو سورج نے سوانیزے پر آنا ہے اس وقت دکھیارے عوام یقینا یہی ورد کریں گے کہ
آعندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
ایک طرف لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ رہا ہے دوسری طرف پٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد عام آدمی کی زندگی اور بھی مشکل ہو جائے گی ۔سردی میں ٹھنڈ اور سردی جاتے ہی گرمی جیسا عذاب ہمارے ہاں عام آدمی کی زندگی منیرنیازی کے کھینچے ہوئے نقشے سے ہوبہو ملتی ہے
اک اوردریا کا سامنا تھامنیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراُترا تو میں نے دیکھا
صاحبو! گرمی آن پہنچی بجلی اب آسمانی بجلی کا روپ دھار جائے گی۔مجھے یاد ہے ہمارے بچپن اور لڑکپن کی ’’اکھ لڑی بدوبدی ‘‘فیم ایکٹریس ممتاز پر فلمائے ایک گیت کا بڑا شہرہ ہوا تھا۔ اس گیت کا مکھڑا کچھ یوں تھا کہ ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں ، جو مجھ کو چھو لے گا وہ جل جائے گا‘‘۔لیسکو اور عوام کو بجلی فراہم کرنے والے دیگر ادارے اس گیت کو اپنے تشہیری گیت کے طور پر منتخب کرسکتے ہیں کیونکہ جون جولائی میں موصول ہونے والے بجلی کے بلوں کو صارفین چھوتے ہی غیر محفوظ ہوجائیںگے۔ بھارتی نغمہ نگار اور ہمارے دوست جاوید اختر نے سری دیوی کو بجلی سے تشبیہ دیتے ہوئے ’’ہواہوائی ‘‘ لکھا تھا۔اس گیت کی استھائی کچھ یوں تھی’’بجلی گرانے میں ہوں آئی ،کہتے ہیں مجھ کو ہوا ہوائی ‘‘۔ چند سال قبل تک ہماری طرح بھارت بھی لوڈشیڈنگ میں ’’خودکفیل ‘‘ تھالیکن انڈیا سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ بھارت پہلی بار بجلی درآمد کرنے کی بجائے برآمد کرنے والا ملک بن گیاہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پاکستان کے پاس بجلی کے وافر ذخائر ہوا کرتے تھے جنہیں بھارت کے ہاں فروخت کرکے زرمبادلہ کمایاجاتارہا۔کیا اب ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی قومی ضروریات پوری کرنے کے بعد مودی کو بجلی دے سکیں۔ اس بابت وضاحت نہیں کی گئی کہ بجلی دینے سے کیامراد ہے ؟ بجلی بھارت کو فروخت کی جائے گی ،تحفے میں دی جائے گی یا دان کی جائے گی ؟کیاہم واقعی اس قسم کی کوئی ’’الیکٹرک سخاوت ‘‘ کرپائیں گے۔امید پر دنیا قائم ہے ویسے یادرکھنے کی بات ہے کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے خواہشمندپاکستانی سیاسی قائدین کو سیکورٹی رسک بھی قرار دیاجاتارہاہے۔اس سے بدتر صورت حال بھارت میں ہے جہاں مودی کے بعد یوگی آگیاہے۔پاکستان سے زیادہ آبادی کے بھارتی صوبے اترپردیش میں ادیتہ ناتھ یوگی کی حکومت قائم ہوگئی ہے جو ہندوتوا کا علمبردار ہے۔ہندو توا کا مطلب ہے کہ بھارت چونکہ بنیادی طور پر ہندوئوں کا دیس ہے اسلئے وہاں کا رہن سہن ہندورسم ورواج کے تابع ہونا چاہیے۔ بھارت میں مارشل لا کانفاذ چونکہ’’ آئوٹ آف فیشن‘‘ ہے اسلئے مودی اوریوگی دونوں انتخابات کے ذریعے حکومتوں میں آئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کے خواہشمندگان بلکہ پسماندگان جن میںڈاکٹر مبشر حسن، منوبھائی ،امتیازعالم اور عاصمہ جہانگیر سمیت بندہ صحافی خودبھی شامل ہے ۔ہمیں اب چاہیے کہ واہگہ کے اس طرف بھارت کی جانب منہ کرکے راحت فتح علی خاں کے پیچھے کورس کی شکل میں یہ گیت گایا کریں
نظر میں رہتے ہوجب تُم نظر نہیں آتے
یہ سُر بلاتے ہیں جب تم اِدھر نہیں آتے
حامد میر نے اسحاق ڈار سے پوچھا کہ سبزیاں اور مرغ کے نرخ میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیاہے ۔ مہنگائی کے سوال پر وزیر صاحب کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے وہ مہنگائی کے مطلب سے بیگانہ ہوں۔حامد میر نے اصرار کیا تو وزیر خزانہ موصوف نے جواب دیا ’’مہنگائی انٹرنیشنل ایشو ہے ‘‘۔ سبزیاں مہنگا ہونے کا سراغ لگانا تومشکل ہے لیکن برائلر ککڑ ( مرغ) کی قیمتوں میں اضافے کا کھرا (نشان) تو اپنوں کے ہاں جاملتاہے ۔ بجلی اور برائلر کی قیمتوں میں اضافے کاکھرا ایک ہی مقام بلکہ ’’مقام ِفیض‘‘ پر جاملتاہے۔ یعنی اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ پاکستان بھر کیلئے 17,500میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے ،اعداد وشمار کے مطابق پاور جنریشن کمپنیاں 11,000میگاواٹ بجلی پیدا کررہی ہیں۔وزیر اعظم صاحب کو 6,500 میگاواٹ بجلی کا بندوبست کرنا ہوگا وگرنہ عمران خان اور زرداری صاحب آنے والے الیکشن میں بجلی کی اس کمی کو مینڈیٹ کا شارٹ فال بنادیں گے۔کپتان الزام لگارہے ہیںکہ نوازاینڈ زرداری نوراکشتی کھیل رہے ہیں۔کرکٹ میں نوراکشتی کو میچ فکسنگ کہاجاتاہے۔ہمارے ہاں سیاست اور کرکٹ دونوں میں میچ فکسنگ ہوتی رہی ہے پھر بھی پارسائی کی دہائی دی جاتی ہے۔میڈیا میں کرپشن کو پیپلز پارٹی سے منسوب کیاجاتاہے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے جانتا ہوںکہ ریاست کی طرف سے اس کا باقاعدہ مظاہرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فیلڈ مارشل ایوب خان کی سرکاری مشینری نے کیاتھا۔جنرل ایوب خان کا دور ’’کلر فل کرپشن ‘‘ کے طور پر مشہورہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر تو لٹکا یاگیامگر ان پر کرپشن کی ایک پائی بھی ثابت نہ ہوسکی۔ ہمارے دکھوں کے ’’بانی ‘‘ جنرل ضیاالحق تھے جنہوں نے اپنے گیارہ سالہ دور میں اسپیشل نرسریوں سے غیر جماعتی سیاست کے بطن سے ایسے قائدین پیدا کئے جو گزشتہ چاردہائیوں سے ہم پر حکمرانی کررہے ہیں۔ دیانتداری سے دہشت گردی کے اسباب جاننے کی کوشش کریں تو اس کے پیچھے بھی یہی ضیاالحقی نظریات پھن پھیلائے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ضیاالحق کا طیارہ ’’پٹنے ‘‘ کے بعد دو،دومرتبہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں آدھی ٹرم پرہی گھربھیجی جاتی رہیں۔ لوڈشیڈنگ کی اصطلاح بھی پہلی بار ضیاالحق کے دور میں سامنے آئی تھی ۔مشرف دور میں کالاباغ ڈیم پر صرف مذاکرے ہوئے ۔پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت کیلئے لوڈشیڈنگ نحس ثابت ہوئی ۔خادم اعلیٰ کے وہ نعرے یاد ہیںجب وہ کہاکرتے تھے ’’لوڈشیڈنگ 6ماہ میں ختم نہ کردو ں تو شہباز شریف میرانام نہیں‘‘۔ کیاوزیر اعظم نوازشریف اس بابت خود کوئی خوشخبری سنائیں گے وگرنہ مودی کو بجلی دینے والی بات تو لطیفے سے کم نہیں۔




.
تازہ ترین