• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں قلبی و روحانی کیفیت کے حوالے سے میرا کالم ’’کیفیت‘‘ شائع ہوا تو قارئین کی جانب سے کئی خطوط موصول ہوئے۔ سلطان احمد صاحب کا خط آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ یہ فکر انگیز اور مدلل خط وسیع تناظر میں لکھا گیا ہے۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔
’’آپ نے 12مارچ 2017کے کالم’’کیفیت‘‘ میں وحدت الوجودی تصوف کے پیروکار کسی بزرگ کے اقوال زریں کیا پیش کئے کہ پڑھ کر دل کو سرور و اطمینان نصیب ہوا بالکل اسی طرح جس طرح اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اہل ایمان کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ میرا بھی ایمان اس امر پر مزید بڑھ گیا ہے کہ انبیاء ؑاور اولیاءؒ اللہ رب العزت کی تعلیم کا نمونہ ہیں۔
لیکن دیکھنا اس بات کو ہے کہ ایک چیز منشائے ایزدی ہے اور دوسری چیز رضائے الٰہی ہے۔
بلاشبہ ملک اللہ ہی کا ہے جو جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس کو اقتدار سے محروم کرنا چاہے کردیتا ہے۔ یہ منشائے ایزدی ہے لیکن اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جس کو زمین پر اقتدار عطا ہو وہ فیصلے انصاف سے کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ اے اہل ایمان اللہ آپ کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو اور جب تم حکم(حاکم) بنائے جائو تو فیصلہ کرو انصاف سے۔ یہودیوں میں سے ایک شخص محض اس لئے حضور ؐ پر ایمان لے آتا ہے کہ اسے آپؐ کی حلیمی سختی پر غالب دکھائی دیتی تھی اور یہی نشانی تورات اور انجیل میں علاوہ اور بہت سی علامات کے آپؐ کی بیان ہوئی ہیں۔ مطلب یہ کہ منشائے ایزدی اور رضائے ایزدی میں فرق ظلم اور بےانصافی کی صورت میں اطاعت نہیں ہوتی ہے۔
ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں آتا ہے جو کوئی میرے’’ذکر‘‘ سے اعراض کرے گا تو ہم اس کی معیشت تنگ کردیں گے۔
قرآن مجید میں’’ذکر‘‘ کا لفظ جس سیاق وسباق میں بیان ہوا ہے اس سے مراد قرآن و سنت ہے۔ آج ہم حقائق کی دنیا میں قرآن مجید کی صداقت اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں اور معیشت سے مراد پوری زندگی ہے۔ برطانوی شبستان کا وجود مولانا محمد علی جوہر، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی صورت میں اذان حق سے نمودار ہونے والی سحر نے لرزادیا تھا لیکن آج مراکش تا انڈونیشیا ستاون سے زائد مسلم ممالک کی حکومتیں اور عوام الناس کی اکثریت قرآن و سنت سے اعراض برت رہی ہے تو برما، افغانستان، پاکستان، عراق، شام، یمن، سعودی عرب، لیبیا، بحرین، مصر ہمارے سامنے لوہے کے کلہاڑےمیں لکڑی کے دستے کےہاتھوںتاراج ہو رہےہیں۔
عرب وعجم کی کشمکش میں آج ہم کس قدر برباد ہورہے ہیں اسے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔
اللہ اور رسول اکرمؐ نے تو ہمیں ایک امت بنایا تھا لیکن امت کی جگہ تو علاقائی اور رنگ ونسب کے تعصبات نے لے لی۔
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم ا ور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
آج ہمارا قبلہ اور سمت مکہ اور مدینہ طیبہ تو نہ رہے بلکہ امریکہ روس اور یورپی یونین ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے ہم کسی بھی سطح پر اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کو ہرگز تیار نہیں۔
اسلام کا نظام خلافت و مشاورت موروثی ا ور شخصی آمریتوں کے محدود مفادات سے متصادم ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ اس کے سامنے پوری انسانیت اور امت کا مفاد ہے لیکن ہمارے مفادات کا تقاضاکچھ اور ہے۔ خادم الحرمین الشریفین اور سید علی خامنہ ای اور حسن روحانی اس بات کو ہم سب سے بہتر جانتے ہیں کہ فرقہ بندی، عرب و عجم کی تفریق روس ا ور امریکہ کی آشیرباد سے متحارب اتحاد کا قیام تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کا نقد نتیجہ لے آتا ہے اور بس .......لیکن جاننے کے ساتھ عمل بھی کرنا ضروری ہے۔ امت کے باب میں اولین ترجیح قرآن ہے۔ اسلام نے سودی نظام سے اگر منع کیا ہے تو عملی نظام ’’معیشت کے باب‘‘ میں دیا ہے کہ اپنی محنت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے اور یہ کہ ضرورت سے زائد اپنے پاس نہیں رکھ سکتے لیکن کون ہے جو اس حقیقت کو سمجھے۔ سربراہ حکومت اور مقننہ قومی خزانے ا ور وسائل کی امین ہے اگر یہ بات ہم شروع سے ہی سمجھ لیتے اور امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرتے اور اہلیت کی بنیادی شرط دیانت داری ہوتی اور وہ اہل افراد قومی امور امانت سمجھ کر چلاتے تو کیا آج پاناما جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا؟
اسلام سسٹم اور افراد کو بیک وقت یکساں اہمیت دیتا ہے کیونکہ افراد ہی نظاموں کے چلاتے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ سسٹم مضبوط ہو تو فرد جیسا بھی ہو کام چلتا ہی رہتا ہے غلط ہے۔ ٹونی بلیئر اور جارج واکر بش جیسے لوگ مضبوط سسٹم کو بھی تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ ان دونوں نے عرق ا ور افغانستان کو نشانہ بنایا پھر لیبیا پر چڑھ دوڑے پھر شام کو ٹارگٹ کیا۔ پھر یمن اور ترکی ہدف بنے جس سے مغرب سمیت پوری دنیا عدم استحکام سے دوچار ہوئی۔
اسرائیل کو محفوظ بناتے بناتے پوری دنیا کا امن دائو پر لگادیا ہے۔ بقول اقبالؒ؎
تدبر کی فسوں کاری سے بہتر ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
نظام سرمایہ داری نے پورے گلوب کی دولت کا 70فیصد محض چند افراد کے ہاتھ میں دے دیا اور دو ارب سے زائد لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
مغرب کو اسلام سے اتنا عناد کیوں ہے؟ کہ یہ اعتدال پسندی کا دین ہے جبکہ مغرب بہت سے معاملات میں انتہا پسند واقع ہواہے۔ قرآن میں ہے کہ تجارت باہمی رضامندی سے ہو لیکن مغرب مشینری کی قیمت کا تعین بھی خود ہی کرتا اور پسماندہ ممالک کے وسائل اور خام مال کی قیمت بھی خود ہی لگاتا ہے اسے کہتے ہیں ٹوپہ بڑا اور گز چھوٹا۔
مغرب کی پوری معیشت کا انحصار ہی استحصال پر ہے تو اسلامی معیشتی تعلیمات ناجائز انتقاع کی اجازت نہیں دیتیں۔
لیکن اب تو اسلام کو سب سے بڑا خطرہ خود نام نہاد مسلمانوں سے ہے؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
لیکن اللہ رب العزت کا فضل ہے کہ اس جاتے دور میں بھی کروڑوں افراد جن میں مسلم اور نامسلم دونوں شامل ہیں ۔ اسلام ہی کو دنیا کے مسائل حل کرنے کا بہترین ضابطہ حیات سمجھ کر عمل پیرا ہونے کو بےتاب ہیں ا ور ان شاءاللہ وہ وقت آئے گا جب ظلم و جبر سے ستائی ہوئی انسانیت اسلام جو سراپا سلامتی ہے کے دامن رحمت میں پناہ لے گی اور حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے الفاظ میں
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ بالا
نیازمند سلطان احمد مونگ۔منڈی بہائوالدین



.
تازہ ترین