• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل یہ خبر آئی تھی کہ صوبہ پنجاب کو انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت صوبے میں دو ایڈیشنل چیف سیکرٹریز ہوں گے۔ ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسطیٰ پنجاب اور دوسرا ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی علاقوں کے معاملات کو دیکھے گا۔ بعد ازاں انتظامی محکموں کو بھی اسی طرح تقسیم کیا جائے گا۔ ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں شامل پوٹھو ہاری اضلاع کیلئے تیسرا ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت کے اس نئے انتظامی منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے بحث دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے ایک بہت بڑی آبادی والے صوبے کو چلانے کیلئے جو نیا انتظامی منصوبہ بنایا ہے، وہ عہد نو میں قابل قبول منصوبہ نہیں ہے۔ پنجاب حکومت صوبے کو بیورو کریسی کے ذریعے چلانا چاہتی ہے۔ جنوبی پنجاب، پوٹھوہار اور وسطی پنجاب کو الگ الگ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ذریعے چلانے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ صوبے کو انتظامی طور پر تقسیم کرکے بیورو کریسی کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جائے۔ یہ طریقہ کار نہ صرف غلط ہے بلکہ موثر انتظام کیلئے بھی کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ملتان میں بیٹھ جانے سے اور ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے راولپنڈی میں بیٹھ جانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ حتمی فیصلے تو ویسے ہی لاہور میں ہوں گے۔ اس سے گڈ گورننس اور موثر انتظام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ بہت بڑی آبادی کی وجہ سے اس وقت پنجاب ناقبل انتظام ہو گیا ہے۔ جدید انتظامی سائنس بھی اتنی بڑی آبادی کو اس طرح کنٹرول کرنے کی مخالف ہے۔ یہ مرکزیت کا نہیں بلکہ عدم مرکزیت کا زمانہ ہے۔ دنیا بھر میں چھوٹی چھوٹی اکائیاں تشکیل دے کر انہیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر خود مختاری دی جاتی ہے۔ پنجاب کی سرحدیں سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کشمیر سے ملتی ہیں۔ دور دراز سے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے نوکر شاہی کے لوگوں کو عام اور غریب لوگوں کی تکالیف اور مشکلات کا اس طرح اندازہ نہیں ہے جس طرح سیاست دان اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ ان کا عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ انتظامی طور پر صوبے کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بناکر پنجاب حکومت نے عدم مرکزیت ( ڈی سینٹرلائزیشن ) کا فلسفہ قبول کر لیا ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ عدم مرکزیت کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اور اس کے مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوں گے۔ پنجاب کی اجتماعی سیاسی دانش اس طریقے کو مسترد کر چکی ہے اور وہ پنجاب میں نئے صوبے بنانے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ 9 مئی 2012 ء کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر دو قرار دادیں منظور کی تھیں، جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے نام سے دو نئے صوبے بنائے جائیں۔ یہ قرار دادیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرگرم رہنما اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پیش کی تھیں،۔ حکومت اور حزب اختلاف کے تمام ارکان نے ان قراردادوں کی حمایت میں ووٹ دیا۔ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت نئے صوبے بنانے سے متعلق بنیادی تقاضا پنجاب اسمبلی کی ان دو قرار دادوں سے پورا ہو گیا۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ جس صوبے کی حد بندیاں تبدیل کرنا ہوں، اس صوبے کی اسمبلی کے ارکان کی دو تہائی اکثریت اس امر کی تائید میں ووٹ دے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کی شرط شاید اس لئے عائد کی گئی ہے کہ پاکستان کے صوبے وفاقی اکائیاں ہیں اور انہیں 1973ء کے دستور میں وہ ضمانتیں حاصل ہیں، جو 23 مارچ 1940 ء کی قرار داد لاہور میں دی گئی تھیں۔ کسی وفاقی اکائی کی اکثریت کی مرضی کے بغیر اسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا اور نیا صوبہ بھی ایک نئی وفاقی اکائی ہو گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کی قرار دادیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے سیاسی وژن اور سوچ کی عکاس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں نئے صوبے بنانے کی حامی ہے۔ اس نے اپنے 2013ء کے انتخابی منشور میں بھی نئے صوبے بنانے کی بات کی تھی۔ 28 اگست 2012ء کو رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی میں ایک اور قرار داد پیش کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے جو 14رکنی پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا ہے، وہ کمیشن تحلیل کیا جائے اور ایک نیا کمیشن تشکیل دیا جائے، جو صوبائی اور قومی قیادت کو اعتماد میں لے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پنجاب اسمبلی کی 9 مئی 2012 ء کی قراردادیں آصف علی زرداری کی ایڈوائس اور قومی اسمبلی کی 11 جولائی 2012 ءکی تائید کی روشنی میں پنجاب کو تقسیم کرنے کیلئے پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ رانا ثناء اللہ نے 28 اگست والی یہ قرارداد اپوزیشن کے بائیکاٹ کے دوران پنجاب اسمبلی سے منظور کرا لی تھی لیکن اس میں بھی پنجاب کو تقسیم کرنے کے حوالے سے 9مئی 2012ء کی قراردادوں کی مخالفت نہیں کی گئی۔ پنجاب کی تقسیم کیلئے سیاسی فضاء ایسی بن گئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت پنجاب کی تقسیم کے نعرے کی اب مخالفت نہیں کر سکتی۔
ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے بڑی مہم چلائی اور اس مہم کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں 9 مئی 2012 ء کی قرار دادیں منظور ہوئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کی۔ ملک بھر میں کسی بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعت نے پنجاب کی تقسیم کی مخالفت نہیں کی۔ پنجاب اسمبلی نے تو اتفاق رائے سے اپنا فیصلہ دے دیا لیکن اس سے 6 دن قبل 2 مئی 2012 ء کو قومی اسمبلی نے ایک قرار داد اتفاق رائے سے منظور کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب میں جنوبی پنجاب کے نام سے ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی قومی سیاسی دانش کا بھی فیصلہ آ چکا ہے۔ پنجاب کی تقسیم کئی وجوہ کی بناء پر ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی ناقابل انتظام حد تک زیادہ ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں پاکستان کے دیگر صوبوں کی مجموعی نشستوں سے زیادہ ہیں۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کیلئے صرف پنجاب پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ یہ بات پاکستان کی سیاست کیلئے مناسب نہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ پنجاب پہلے ہی لسانی اور ثقافتی طور پر تقسیم ہے اور چوتھا اور اہم سبب یہ ہے کہ پنجاب کی اجتماعی سیاسی دانش کے ساتھ ساتھ قومی سیاسی دانش پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ کر چکی ہے۔



.
تازہ ترین