• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصے سے مجھے وہم ہو گیا ہے جیسے میں درویش ہوتا جا رہا ہوں۔ درویشی کے دعوے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کا ثبوت نہیں دینا پڑتا، فقط دعوے سے کام چل جاتا ہے۔ مثلاً صوفی بننے کے لئے کسی اسکول کالج میں داخلہ نہیں لینا پڑتا، کسی یونیورسٹی کی سند نہیں دکھانا پڑتی، کوئی شارٹ کورس یا ڈپلومہ نہیں کرنا پڑتا... بس کہنا کافی ہے کہ میں صوفی ہوں، سائیں ہوں، درویش ہوں، فقیر ہوں، ملنگ ہوں... پھر چل سو چل۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر کوئی دعویٰ کرکے درویش بن سکتا ہے، اس کے لئے بہرحال کچھ نہ کچھ جوہر تو دکھانے پڑتے ہیں جیسے کہ کتاب شتاب لکھنی پڑتی ہے، دنیا سے بیزاری ظاہر کرنی پڑتی ہے، اقوال زریں اکٹھے کرکے لوگوں کو سنانے پڑتے ہیں، حسد، نفرت اور عداوت جیسے جذبات سے بظاہر ماورا ہونا پڑتا ہے اور ضرورت پڑنے پر تعویز دھاگے دینے پڑتے ہیں یا دم وغیرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ آسانی اِن سب کاموں میں یہ ہے کہ اس کا کوئی لکھا پڑھا کھاتا نہیں، کتاب میں اپنی قلبی وارداتوں کا احوال لکھ دیں، کوئی نہیں پوچھے گا کہ صاحب جو کچھ آپ نے لکھا اس کا کوئی ثبوت یا سند دین سے تو نہیں دی جا سکتی پھر کیسے یقین کیا جائے! اسی طرح دنیا سے بیزاری کا دعویٰ بے شک کئے جائیں، کوئی نہیں پوچھے گا کہ صاحب گھٹنوں تک آپ دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دعویٰ ہے درویشی کا! اور اگر کوئی پوچھ لے تو مرشد سے پہلے مریدین بتا دیں گے کہ یہ جو کچھ تمہیں نظر آرہا ہے دراصل یہ تمہاری ظاہری آنکھ تمہیں دکھا رہی ہے، باطنی آنکھ سے دیکھو تو اعلیٰ حضرت کی صفات نظر آئیں۔ سو اگر آپ کو صفات نظر نہیں آ رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ باطنی آنکھ ہی نہیں رکھتے، اب یہ کون تسلیم کرے! رہی بات اقوال زریں سنانے کی تو یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں، آج کل تو ارب پتی تاجر بھی ہر گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر اپنے نام سے کوئی نہ کوئی خوبصورت بات جاری کرتے ہیں جس میں دنیا کو کتّا کہا جاتا ہے، لالچ، حرص اور طمع سے (دوسروں کو) پرہیز بتایا جاتا ہے، قناعت کی تلقین کی جاتی ہے اور صبر کا درس دیا جاتا ہے۔ غالباً یہ تمام نصیحتیں وہ اپنے ملازمین کے لئے کرتے ہیں جن کی تنخواہ وہ وقت پر ادا نہیں کرتے۔ سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خوبصورت باتیں سنا کر لوگوں کا دل موہ لینا بھی کچھ ایسا مشکل کام نہیں جو درویشی کے دعوے میں رکاوٹ بن سکے۔ اور رہی یہ بات کہ اپنی ذات سے حسد اور نفرت کے جذبات کیسے ختم کئے جائیں تو اصل میں یہ جذبات اپنے اندر سے ختم نہیں کرنے فقط انہیں ختم کرنے کا دعویٰ کرنا ہے لہٰذا یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔ ان تمام ٹپس پر عمل کرنے کے باوجود بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی درویشی رنگ نہیں لا رہی تو آخری نسخے کے طور پر وہ پیش گوئیاں کا سلسلہ شروع کر دے، اس کے بعد قدرت کا کمال دیکھے۔ یہ تجزیہ کوئی نہیں کرے گا کہ گزشتہ دس برسوں میں اُس نے کتنی پیش گوئیاں کیں اور اُن میں سے کتنی درست یا غلط ثابت ہوئیں بشرطیکہ وہ پیش گوئیاں نظام بدلنے سے متعلق ہوں اور نظام نہ بدلنے کی صورت میں کوئی خوفناک وعید لئے ہوئے ہوں۔
بات کچھ دور نکل گئی۔ تمہید کا مقصد دراصل اپنی درویشی کا تجربہ بیان کرنا تھا۔ کچھ عرصے سے مجھے دنیا کی بے ثباتی کا کچھ زیادہ ہی یقین ہو چلا ہے، انسان جو کچھ بھی کر لے، کتنی ہی کامیابیاں سمیٹ لے، کتنی ہی شہرت حاصل کرلے، کتنی ہی ورزش کرلے، وارڈ روب میں کتنے ہی دیدہ زیب سوٹ کیوں نہ لٹکتے ہوں، کیسے نت نئے خوشبویات ہی کیوں نہ استعمال کرتا ہو، کتنے ہی عالیشان محل میں کیوں نہ رہتا ہو، کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ فائز ہو، کتنا ہی بڑا طرم خان کیوں نہ ہو... ایک دن اسے چھ فٹ زمین کے نیچے ہی دفن ہونا ہے۔ اُس کے بعد چاہے کوئی جنازے پر آئے یا نہ آئے اور اُس کی یاد میں کوئی تعزیتی ریفرنس ہو یا نہ ہو، مرنے کے بعد اُس کی صحت پر کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اِس درویشانہ سوچ کا ایک بالکل دنیا دار پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا کی بے ثباتی کا یہ احساس دماغ میں جڑ پکڑتا ہے تو ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ پھر اِس دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز کیوں نہ ہوا جائے، اس چھوٹی سی زندگی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھنے کی بجائے اس میں سے خوشی کیوں نہ کشید کی جائے ، ٹھیک ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے مگر پھر رات بھر کی نیند کیوں حرام کی جائے۔ (غالب کی پیروڈی شفیق الرحمٰن نے کچھ یوں کی ہے :شادی کا ایک دن معیّن ہے، نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!) اِس مختصر سی زندگی میں خوشی اہم ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خوشی کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جائے؟ دل تو چاہ رہا ہے کہہ دوں کہ ’’اس سوال کا جواب پھر کبھی‘‘ مگر یہ سوچ کر کہ اب میں صوفی ہونے کے وہم میں مبتلا ہوں اور صوفی چونکہ کسی کا دل نہیں دکھاتا سو اس سوال کا مختصر جواب یہیں حاضر ہے، باقی پھر کبھی!
خوشی کی تعریف مسلط نہیں کی جا سکتی۔ کسی کو رقص کرنے میں خوشی ملتی ہے تو کسی کو بچے کی مسکراہٹ میں جہان مل جاتا ہے، کسی کے لئے خوشی کے لمحات اپنے محبوب کی باںہوں میں ہوتے ہیں تو کسی کے لئے خوشی کائنات کے طول و عرض میں بکھری روشنی سمیٹنے کا نام ہے۔ ذاتی طور پر مجھے دیسی گھی لگے کلچے کا ساتھ آملیٹ کھانے سے جو خوشی ملتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ جاپانیوں نے البتہ خوشی دریافت کرنے کا ایک انوکھا طریقہ نکالا ہے، اُن کے نزدیک خوشی، کم سے کم کا نام ہے۔ قناعت پسند جاپانیوں کی یہ مہم کچھ عرصے سے زوروں پر ہے جس کا مقصد اپنی زندگی سے غیر ضروری چیزوں سے چھٹکارا پانا ہے، یہ جاپانی اپنے گھروں میں برائے نام فرنیچر رکھتے ہیں، فقط ایک میز کرسی اور کبھی کرسی بھی نہیں، کھانے کے ایک دو چمچ یا چھری کانٹے، الماری میں دو چار پینٹ قمیص، ایک جوڑا جوتوں کا، ایک ٹوتھ برش مع ٹوتھ پیسٹ اور فریج میں پانی کا جگ، لکڑی کے فرش پر گدا بچھایا اور سو گئے۔ زندگی سے اور کیا چاہئے! لیکن یہ عظیم لوگ ہیں، درویشی کا دعویٰ نہیں کرتے مگر درویشانہ طرز زندگی ضرور اپنا لیا ہے۔ ایک میں ہوں، دعویٰ درویشی کا اور کھانے کلچے!
کالم کی دُم:آپ میں سے جن کی زندگی میں خوشی کی کمی ہے وہ خاکسار سے بذریعہ ای میل تعویز حاصل کرسکتے ہیں۔



.
تازہ ترین