• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آرمیک ماسٹر پر واضح کررہے تھے کہ اسلام آباد کا کوئی پراکسی نہیں، تو پاکستان کا دورہ کرنے والے معزز مہمان یقیناً خود بھی اس حقیقت سے واقف رہے ہوں گے کہ غیرملکی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا شکاررہنے والا یہ ملک اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی کیوں اجازت دے گا؟ امریکی مشیر پیر کے روز اچانک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل باجوہ اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کیں۔ قبل ازیں انہوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا دورہ کیا اور پاکستان آنے سے پہلے ایک خصوصی انٹرویو میں اسلام آباد کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان سمیت کہیں بھی ’’پراکسی‘‘ میں نہ پڑے اور ’’ڈپلومیسی‘‘ یعنی سفارت کاری کی راہ اپنائے۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے (آئی ایس پی آر) نے منگل کے روز آرمی چیف جنرل باجوہ سے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کی ملاقات کے حوالے سے جو پریس ریلیز اور ٹویٹ جاری کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملاقات میں واشنگٹن کے مذکورہ مشورے پر بھی بات ہوئی۔ پاکستان اور امریکہ دیرینہ طور پر فوجی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی معاہدوں کے حلیف رہے ہیں اور واشنگٹن کے مذکورہ نوعیت کے مشوروں، پیغامات اور مطالبات ممکن ہے امریکی ’’ڈپلومیسی‘‘ کا خاص حصہ ہوں اس لئے اسلام آباد کو دیرینہ دوست کی حیثیت سے حقائق کی بار بار وضاحت میں کوئی تامل نہ رہا ہے، نہ رہنا چاہئے۔ ہمارے دوست ملک کی طرف سے، جو اہم سپر پاور بھی ہے پچھلے دنوں میں جن دو الفاظ کا خاص طور پر ذکرکیا گیا، ان میں سے ایک اصطلاح ’’پراکسی‘‘ بالخصوص تعلیمی اداروں میں اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کوئی طالب علم کلاس میں موجود نہ ہو اور اس کی فرمائش پر یا فرمائش کے بغیر کلاس میں موجود اس کا کوئی دوست حاضری لگوا دے۔ بین الاقوامی امور میں جب کوئی ملک خود پس پردہ رہتے ہوئے دوسری سرزمین پر اپنے ایجنٹوں اور طفیلیوں کے ذریعے دشمنانہ عزائم یا اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے منفی سرگرمیاں بروئے کار لاتا ہے تو ان کے لئے عموماً پراکسی وارکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ افغان سرزمین پر مشرق، مغرب یا کسی اور سمت سے ہونے والی مسلح مداخلت یا اندرونی گڑبڑ کے باعث جب چالیس لاکھ افراد اپنے گھر بار، مال مویشی، کاروبار وغیرہ چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہوئے توپاکستانی قوم نے انسانی فریضہ کے طور پر انہیں پناہ دی اور ان کی خوراک، روزگار، تعلیم، صحت عامہ کی سہولتوں میں کفالت کے لئے اپنی انتہائی جائز ضرورتوں میں چارعشروں سے غیرمعمولی ایثار کا مظاہرہ کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تقاضے پورے کئے جبکہ مشرق وسطٰی کے حالیہ بحران کے دوران جان بچانے کے لئے دوسرے ملکوں کی راہ لینے والے افراد کے ساتھ انسانی حقوق کا علم اٹھانے والے بعض ممالک نے جو سلوک کیا وہ تاریخ انسانی کا افسوسناک باب ہے۔ پاکستان میں پناہ لے کر کئی نسلوں کے اضافے کے ساتھ مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے افغانوں کی اپنے گھروں کو واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسلام آباد اقوام متحدہ اور مختلف ممالک کے ساتھ مل کر جو کوششیں کررہا ہے انہیں کسی طور بھی ’’پراکسی‘‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ افغانستان کے قریب ترین پڑوسی کی حیثیت سے وہاں رونما ہونے والے اچھے اور برے واقعات براہ راست پاکستان پر اثرانداز ہوتے ہیں کیونکہ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف لاکھوں خاندانوں میں شادی بیاہ اور میل ملاقات سمیت باہمی روابط روزمرہ کا حصہ ہیں۔ ان کے جھگڑے اور رنجشیں نمٹانے کے روایتی طریقوں سے پاکستانی قوم سے زیادہ کون آگاہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے افغان معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مفاہمت کی پاکستانی کوششیں اس ہمسایہ ملک کے بہتر مستقبل اور پاکستان سمیت خطے کے امن کی ضرورت ہیں۔ بلاشبہ افغانوں کے باہمی جھگڑوں اور نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں بھارت کی طرف سے پاک افغان سرحد کے دونوں طرف بھیجے گئے ایجنٹوں کے باعث اسلام آباد کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے مگر ان سے نمٹنے کے لئے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنوں اور افغانستان کے اندر اثر و رسوخ رکھنے والے مختلف حلقوں کے علاوہ کابل حکومت، امریکہ، روس، چین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر لائے بغیر چارہ نہیں۔ اس مقصد کے لئے اسلام آباد طویل عرصے سے کوشاں ہے اور خطے اور کرہ ارض کے امن کے لئے سفارت کاری کی اعلیٰ مثال کی حیثیت سے اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ مگر اسلام آباد سے یہ توقع بہرحال نہیں رکھی جانی چاہئے کہ وہ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف احترام کی نظر سے دیکھی جانے والی شخصیات کو بیچ میں ڈال کر مختلف دھڑوں کومذاکرات کی میز پر لے آئے تو انہیں امریکہ یا کسی اور ملک کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے پر بھی آمادہ کرلے گا۔ افغان روایتی طور پر اپنے معاملات میں کسی بھی بیرونی عنصر کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتے۔ بھارت نے برٹش انڈیا کی تقسیم سے قبل ہی کروڑوں مسلمانوں پر مشتمل برصغیر کی اہم قوم کو قتل عام کا نشانہ بنانے اور اس کے ملک پاکستان کو مٹانے کے لئے جنگیں مسلط کرنے، پاکستان میں ایجنٹوں کا جال پھیلانے اور اپنی سرحدوں سے بہت دور افغانستان میں تسلط قائم کرنے کے لئے جو کچھ کیا، افغانستان میں قائم اپنے قونصل خانوں کو پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں میں جس انداز سے تبدیل کیا اسے ’’پراکسی وار‘‘ کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ عالمی برادری کی یہ ذمہ داری تھی کہ بھارت نے پاکستان سے الحاق کرنے والی جن ریاستوں پر بزور طاقت قبضہ کیا، ان کا نوٹس لیتی۔ خاص طور پر متنازع ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق ارادیت دینے کے بھارتی وعدے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بناتی۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے مذاکرات کا ڈول ڈال کر بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی جو کوششیں کررہا ہے، وہ ’’پراکسی’’ نہیں ’’سفارت کاری‘‘ کی ضمن میں آتی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی جو پیشکش کی، اس میں پیشرفت سفارتکاری کی اعلٰی مثال ہوگی۔ پاکستانی عوام منتظر ہیں کہ اس باب میں صدر ٹرمپ اپنا عملی کردار کب ادا کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین