• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتہ حامد میر نے اپنے کالم میں ایک ادبی میلہ کا ذکر کیا تھا ۔ میلہ کا اہتمام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کیا تھا ۔1974میں ریڈیو پاکستان کو الوداع کہنے کے بعد میں نے اپنا رشتہ اوپن یونیورسٹی سے جوڑا تھا ۔ تب اوپن یونیورسٹی کانام پیپلز اوپن یونیورسٹی تھا ۔ یونیورسٹی کا دفتر ایف سیون فورF-7/4اسلام آباد میںتھااور یونیورسٹی کاغذوںاور فائلوں کے مرحلوں سے گزر رہی تھی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ڈبلیو ایم ذکی اور پاکستان کے سپر میڈیا ٹیچر پروفیسر لئیق احمدنے مجھے خوش آمدید کہا تھا اور گرم جوشی سے اپنی بانہوں میں لے لیا تھا۔ اگلے برس یونیورسٹی کو آئی ایٹ8-1سیکٹر میں عارضی کیمپس ملا۔ عارضی کیمپس گورنمنٹ کالج اسلام آباد کے زیر تعمیر ہوسٹل کے چار بلاکوں پر مشتمل تھا ۔ ایک سال بعد عارضی کیمپس کو پیپلز اوپن یونیورسٹی کے مستقل کیمپس کادرجہ دیاگیا ۔ اسکے بعد دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی ۔ رجسٹرڈ طلبا کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاویز کرگئی۔لائبریری کی عمارت بنی ۔ لائبریری کے سامنے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کی عمارت بنی ۔ انسٹیٹیوٹ میں ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹوڈیوز ہوتے تھے جہاں ہم لیکچرار اور پروفیسرز صاحبان کوریڈیو اورٹیلی وژن کے ذریعے پڑھانے کی تربیت دیتے تھے ۔ اور ایجوکیشنل پروگرام بناتے تھے ۔ ڈکٹیٹر ضیاالحق نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا۔ پاکستان کے صدر بن بیٹھے ۔ صدر ہونے کے ناطے وہ اوپن یونیورسٹی کے چانسلر تھے ۔ حکم صادر کیا کہ پیپلز اوپن یونیورسٹی کانام تبدیل کرکے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رکھا جائے۔ یونیورسٹی نے حکم کی تعمیل کی ۔یونیورسٹی کے نئے نام کی تختی کی نقاب کشائی کرنے کے لئےضیاءالحق دھوم دھام سے یونیورسٹی پہنچے اور یونیورسٹی کو نیا نام دے گئے۔ انیس سو چھیاسی میں ، میں ساٹھ برس کی عمر میں اوپن یونیورسٹی سے ریٹائر ہوا ۔ ہم کچھ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، اب گنے چنے رہ گئے ہیں۔ مگریونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں بھلایا نہیں ہے۔ ادبی میلہ ہو ، ایجوکیشنل کانفرنس ہو ، ماس میڈیا پر سیمینار ہو ، فاصلاتی طریقہ کار پر ورکشاپ ہو ، یونیورسٹی ہمیں مدعو ضرور کرتی ہے ۔
یونیورسٹی نے ادبی میلہ کے لئے مجھے بھی مدعو کیاتھا ۔ اس وقت میں بستر مرگ پرتھا ۔ دعوت نامہ دیکھتے ہی میں نے آکسیجن ماسک اتار پھینکا ۔ اور آناً فاناً اسلام آباد جا پہنچا۔ میں نے دل کھول کر ادبی میلہ میں حصہ لیا ۔ دوروز تک اچھلتا رہا ۔ کودتا رہا ۔ پردیس سے پرانی یادوں کو بلاکر کھلکھلا کر ہنستا رہا ۔ میں نے بھلادیا تھا کہ میں بستر مرگ سے اٹھ کر ڈاکٹر اور نرسوں کو چکمہ دیکر اسلام آباد آیاتھا ۔ اس دوران میں نے اردو کے بارے میں اپنا غیر نصابی، غیر تحقیقی، غیر ادبی اور غیر دانشمندانہ، اور غیر تحریری مقالہ زبانی سنا ڈالا تھا ۔ حامد میرکا کالم پڑھ کر مجھے تعجب ہوا ۔ ان کے کالم میں میرا اور میرے غیر تحریری مقالہ کا ذکر نہیں تھا ۔ مجھے حیرت ہے کہ میر کے ساتھ ساتھ کسی پیر ، کسی فقیر نے بھی مجھے اسلام آباد میں نہیں دیکھا تھا ۔ میں تو بستر مرگ پر پڑا ہوا تھا ۔ اسقدر پیار سے بلاوا آنے کے باوجود شاید میں اسلام آباد نہیں گیا تھا ! اگر میں اسلام آباد نہیں گیا تھا تو پھر اوپن یونیورسٹی کے ادبی میلہ میں وہ بوڑھا کون تھا جو جوانوں سے زیادہ زور زور سے ہنس رہاتھا اور چوبیس برسوں کی یادوں کو پلے بیک کررہا تھا ! ہم محبت کرنے والے مرتے نہیں۔ ہم اوجھل ہوجاتے ہیں۔
اب آپ اردو کے بارے میں میرے غیر تحریری مقالہ کی دوچار باتیں سن لیجئے جوآپ نے پہلے بھی سنی ہونگی ، نہ کبھی پڑھی ہونگی ۔ جب تک آپ کسی حقیقت کے بارے میں حیران نہیں ہوتے تب تک آگاہی اور ادراک کے دروازے آپ پر نہیں کھلتے ۔ حیران ہونے کے بعد آپ پر آگاہی اور ادراک کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کب ، کہاں اور کیسے میں اردو کے بارے میںحیران ہوا تھا ۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں اردو کے بارے میں بہت حیران ہوا تھا۔ دانشوروں اور محققین کی باتیں قطعی میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں جب وہ لکھتے پھرتے تھے کہ اردو کا تعلق لشکر سے ہے، فارسی سے ہے، ترکی سے ہے، ، فلاں سے ہے، اردو کے بارے میں ایسی باتیں مجھے چھوٹی اور سطحی لگتی تھیں ۔ تب اردو غیر معمولی حیرت انگیز حقیقت بن کر میری سمجھ اور میرے شعور میں آئی تھی ۔ ایک غیر معمولی اور حیرت انگیز حقیقت کو آپ لشکری، فارسی ،ہندی، اور ترکی حوالوں سے نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ سمجھا سکتے ہیں۔ اردو کرشمہ ہے۔ اور کرشمے سمجھائے نہیںجاتے ۔ صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اردو کے لئے میں نے لفظ کرشمہ Miracleیوں ہی استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کے لئے میں کسی قسم کی وضاحتیں دینا ضروری نہیں سمجھتا ۔ میرے پاس ناقابل تردید اور ٹھوس تاریخی شہادتیں ہیں۔ اردو کرشماتی زبان ہے۔
یہ عام سی بات ہے کہ دنیا میں ہر ایک بولی اور لکھی جانے والی زبان کا اپنا ایک مسکن، اپنا ایک مکان، اپنا ایک ماحول اور اپنا ایک ملک ہوتا ہے جہاں وہ زبان بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے اور پنپتی رہتی ہے۔ جیسے افغانستان میں افغانی، ایران میں ایرانی جسےفارسی بھی کہا جاتا ہے، ترکستان میں ترکی، نیپال میں نیپالی، برما میں برمی، انگلینڈ میں انگریزی، فرانس میں فرنچ، جرمنی میں جرمن، پنجاب میں پنجابی، بنگال میں بنگالی، گجرات میں گجراتی، مدراس میں مدراسی، مہاراشٹرا میں مراٹھی، بلوچستان میں بلوچی اور سندھ میں سندھی۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اس بات میں حیران ہونے کیلئے قطعی عنصر نہیں ہے۔ عام سی بات ہے۔ رواجی بات ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں اردو کا کرشماتی وجود کسی بھی سوچنے والے کو، کسی بھی ذی شعور کو حیران کردینے کیلئے کافی ہے۔ اردو کے حوالے سے لشکری، فارسی، ترکی کا تذکرہ بے معنی لگتا ہے۔ ان حوالوں میں دم خم ہوتا تو آج عدم موجود نہ ہوتے۔ یہ بات تحقیق تک تو ہضم کی جاسکتی ہے مگر اس سے آگے نہیں۔ اردو ان حوالوں سے بالاتر ہے۔ کیا یہ حقیقت حیران کن بلکہ کرشماتی محسوس نہیں ہوتی کہ تقسیم ہند سے پہلے کلکتہ سے کراچی اور کیرالا سے کشمیر تک اردو بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس معجزے میں کسی مقتدرہ قومی زبان، ادارہ ترقی اردو وغیرہ جیسے اداروں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ایک ایسی زبان جس کا اپنا کوئی مسکن، کوئی مکان نہیں تھا پورے ہندوستان میں بولی جاتی تھی۔
اب جب کہ اردو کی بات نکل پڑی ہے تو پھر کئی منگلوں تک میں فقیر اردو کے معجزوں اور کرشموں کی باتیں کرتا رہوں گا اور ایسی باتیں آپ نے پہلے نہ سنی ہوں گی اور نہ پڑھی ہوں گی۔

.
تازہ ترین