• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارش کا پہلا قطرہ بدلتے ہوئے موسموں کا عکاس ہوتا ہے ۔ میدان ِ جنگ میں کمان سے نکلا ہو ا پہلا تیراعلانِ جنگ سمجھا جاتا ہے ۔پہلا تاثر عموماً آخری سمجھا جاتا ہے۔نون لیگ کے معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔حکمرانوں پر کرپشن کا الزام کسی حد تک خود ان کے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے بھی لگا دیا ہے انہوں نے مستعفی ہوتے ہوئےکہا ہےکہ’’وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کرپشن میں ملوث ہیں ۔‘‘وزیر اعظم کے صادق و امین ہونے کے بارے میں عمران خان برسوں سےجوکہتے چلے آ رہے ہیں اس کی قانونی حیثیت نہ سہی لیکن اب عدالتی فیصلے نے اس پر سوال اٹھادیا ہے۔بہر حال دو سینئر ترین ججوں نے انہیں نا اہل قراردے دیا ہے ۔باقی تین ججوں نے بھی ان کے متعلق کوئی اچھی باتیں نہیں لکھیں ۔ اِس عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان نےوزیر اعظم پر دبائو بڑھانے کےلئے اسلام آباد میںبھرپور عوامی طاقت مظاہرہ کیا اور کہا کہ’’ سجن جندال آپ کونہیں بچا سکتا ‘‘دراصل بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال کےغیر اعلانیہ دورہ پاکستان سے کئی سوال پیدا ہوگئے ہیں ۔لوگوں کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہے جب ان کے پاس صرف اسلام آباد اور لاہورکا ویزا تھا توانہوں نے مری میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ لنچ کیسے کیا ۔یہ وہی جندال ہیں جنہوں نے مریم نواز کی بیٹی کی شادی پر آکر کئی روز تک لاہور کے اُس تاریخی ہوٹل میں قیام کیا جس کے مالکان میں ایک اہم شخصیت ہستی کا والد اور دوسرا مریم نواز کا قریبی رشتہ دار ہے جو خود کو ایک میڈ یا ہائوس کے مالک کارشتہ دار بھی بتاتا ہے ۔ایک سوال یہ کیا جارہا ہے کہ انہیں دس روز کا ویزا دیا گیا ۔اگلے آٹھ دن لاہور یا اسلام آباد میں ان کی کیا مصروفیات ہونگی۔
مریم نواز نے اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جندال کی نواز شریف سے ملاقات خفیہ نہیں تھی وہ پرانے دوست ہیں ۔بے شک دونوں کاروباری شخصیات ہیں سو دونوں کی دوستی میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ۔کہا جارہا ہے کہ اس ملاقات کے پس منظر میں کہیں پاکستان میں بجلی کے بحران کے خاتمہ کی کہانی موجود ہے ۔جس کا پلاٹ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خصوصی پیغام کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت بجلی کے بحران پرقابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے ۔نندی پور پروجیکٹ کی فلم فلاپ ہو چکی ہے اس میں ہونے والی کرپشن کے سین وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف خود سناتے پھرتے ہیں ۔ بہاول پور میں قائداعظم سولر پارک میں بھی قوم کا سرمایہ ڈوب چکا ہے یعنی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہیں ۔کوئلہ سےبجلی بنانے کا منصوبہ خواب بنتا جارہا ہے ۔اور وہ پرو جیکٹ جس کےلئے تمام پاکستانی شہری بجلی کے ہر بل کے ساتھ نیلم جہلم سرچارج ادا کرتے ہیں ۔شروع میں اس کا تخمینہ چند ارب لگایا گیا تھا اب اس کی لاگت کھربوں روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ تین روز پہلے بھارتی کابینہ نے بجلی پاکستان کو فروخت کرنےکی منظوری دی ہے ۔پاکستان کا بھارت سے بجلی خریدنے کا معاملہ تھوڑا سا عجیب ہے ۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ایران کے وزیر توانائی مجید نامجو نے کہا تھا کہ ایران پاکستان اور بھارت کو 6 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرے گا، جبکہ مجموعی6 ہزار میگاواٹ میں سے 2 ہزار میگاواٹ پاکستان کو اور باقی بھارت کو برآمد کی جائے گی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف بھارت خود ایران سے بجلی خریدنے کا خواہشمند ہے دوسری طرف اطلاعات کے مطابق بھارت نےپاکستان کو ایک ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے ترسیلی لائنیں بچھانے کا کام شروع کرنے کے لیے پاکستانی ماہرین کی ٹیم آئندہ چند دنوں میں بھارت کادورہ کرے گی ۔اس ٹیم میں محکمہ پانی و بجلی کے علاوہ دوسرے اعلیٰ حکام بھی شامل ہونگے ۔
اب یہ سوال بہت اہم ہے پاکستانیوں کو بھارتی بجلی چاہئےیا نہیں۔اس سلسلے میں مجھے راولپنڈی سےارشد محمود وٹو اپنی ای میل میںلکھتے ہیں ’’آج جندال کے بارے میں ایک بیان دیکھا تو میرا سر شرم سے جھک گیا کہ ہم را کے ملک سے بجلی لیںگے ۔ یہ وہی ہے ’’را ‘‘جس کے ایجنٹوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 140 معصوم بچوں کو شہید کیا تھا ۔یہ وہی را ہےجس نے چارسدہ کالج میں حملہ کر کے نہتے طالب علموں کو ابدی نیند سلا دیا تھا ۔یہ وہی را ہےجو کشمیر میں خون کی ہولی کھیل رہی ہے ۔یہ وہی را ہےجو ہزاروں پاکستانیوں کی قاتل ہے ۔پپلاں (میانوالی ) سےاختر مجاز اپنے میسج میں لکھتے ہیں کہ بھارت نےکشمیریوں پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے ۔ کشمیریوں کی لاشوں اور کشمیری بیٹیوں کی عصمت دری کی قیمت پر بھارت سے بجلی خریدناکسی غیرت مند قوم کا کام نہیں ۔دوسری طرف سرائیکی زبان کے معروف شاعر افضل عاجز کا خیال ہے کہ آزادی کشمیر کی تحریک اپنی جگہ پر ۔اس مسئلہ کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس کے حل کےلئے ابھی کئی دہائیاں اور درکار ہیں ۔یہ جیسے جیسے چل رہا ہے اسے چلتے رہنا چاہئے مگر بھارت سے کاروباری مراسم برقرار رکھے جائیں بلکہ انہیں آگے بڑھایا جائے کیونکہ اسی میں پاکستان کا فائدہ ہے ۔ معاشی طور پر ایک مضبوط پاکستان کشمیریوں کے حق کےلئے بہتر انداز میں آواز بلند کر سکے گا ۔اس لئے چاہے بجلی کی خریداری ہو یا سی پیک میں بھارت کی شمولیت ان سب باتوں کو خوش آمدید کہا جائے اور اس میں حکومت کا ساتھ دیا جائے ۔



.
تازہ ترین