• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ ذہن نشین کرلیں کہ فقیر اپنے آپ کو قصوں اور کتھائوں میں اردو کے حیرت انگیز کرشماتی اور معجزاتی وجود تک محدود نہیں رکھے گا۔ قصوں اور کتھائوں میںبٹوارے کے بعد یعنی تقسیم ہند کے بعد جو رویہ اردو کے ساتھ ہندوستان میں رکھا گیا اور خاص طور پر جو برتائو اردو کے ساتھ پاکستان میں روا رکھا گیا اس کا بار بار ذکر آئے گا۔ اس طرح آپ اردو کے حوالے سے ایک چشم دید گواہ سے پاکستان کی تاریخ سنیں گے اور پڑھیں گے۔ یہ سلسلہ کئی منگلوں تک جارہی رہے گا۔
پچھلی کتھا میں فقیر نے عرض کیا تھا کہ جب تک ہم غیرمعمولی حقیقت کے بارے میں حیران نہیں ہوتے تب تک آگاہی اور ادراک کے دروازے نہیں کھلتے۔ ہم بند گلی میں زندگی گزار دیتے ہیں، جب تک ہم باہر نکل کر نہیں دیکھتے تب تک کھڑکی سے نظر آنے والے آسمان کے ٹکڑے کو ہم کل کائنات سمجھتے ہیں۔ بہت پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سایہ اگر کسی کوڑھی پر پڑ جائے تو وہ ٹھیک ہوجاتا تھا، مجھے بہت حیرت ہوئی تھی۔ حیران ہونے کے بعد فقیر کے لئے آگاہی اور ادراک کے دروازے کھلتے گئے۔ پتہ چلا کہ کلکتہ میں کوڑھیوں کی کالونی میں ساٹھ ستر برس تک رہنے والی، ان کی دیکھ بھال کرنے والی ان کا علاج کرنے والی مدر ٹریسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروکار تھی۔ پانی کے جہاز، ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں، ٹیلیفون، ریڈیو، ٹیلیوژن، کمپیوٹر اور موبائل فون جو آپ اور میں استعمال کرتے ہیں وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکارروں یا حضرت موسی علیہ السلام کے پیروکاوں نے بنائے ہیں۔ حیرت انگیز سائنسدان آئن اسٹائن بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار تھے۔ پچھلی صدی کے دس ذہین ترین لوگوں میں ایک برٹ رینڈ رسل بھی ایک لحاظ سے عیسائی تھے، مگر انہوں نے ہی ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’میں عیسائی کیوں نہیں ہوں۔‘‘ پچھلی صدی کے ڈاکٹر سائنسدان، جن کا نام سرِدست مجھے یاد نہیں آرہا ہے انہوں نے پینسلین بنائی تھی، ان کی اس ایجاد سے تپ دق کا علاج ممکن ہوسکا تھا۔ یہ جو آج کل ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک کی پانچویں جنریشن استعمال کرتے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہ ڈاکٹر سائنسدان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیروکار تھا۔ برصغیر کے وہ لوگ جو حیرت انگیز حقائق سے قطعی حیران نہیں ہوتے وہ اب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو غسل خانہ صاف کرنے والے سمجھتے ہیں۔ جب تک آپ حیرت انگیز حقائق سے حیران نہیں ہوتے تب تک آپ غسل خانہ تک محدود رہ جاتے ہیں۔
تقسیم ہند سے کچھ برس پہلے اور تقسیم ہند سے کچھ سال بعد اردو کے لئے سخت ترین سال تھے۔ وہ دور اردو کے لئے آزمائش کا دور تھا۔ اردو اگر چند لشکروں، فارسی، ہندی، ترکی کی مصنوعی ایجاد ہوتی تو آزمائش پرپوری نہ اترتی۔ اردو ایک کرشمہ، ایک معجزےکی طرح وجود میں آئی تھی۔ اردو ہندوستان کے کسی صوبے کسی خطے کی زبان نہیں تھی مگر اس کے باوجود اردو کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ سے کشمیر تک بولی اور سمجھی جاتی تھی، یہ بات نظرانداز کرنے کی نہیں ہے۔ بنگالی کوئی عام رواجی زبان نہیں ہے، بنگالی رابندرناتھ ٹیگور کی زبان ہے، بنگالی دیوداس اور چھوٹی دیدی جیسے ناول لکھنے والے سرت چندر جیسےادیب کی زبان ہے، بنگالی شاعر نذرالاسلام کی زبان ہے مگر بنگالی کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ سے کشمیرتک نہیں بولی جاتی تھی۔ اسی طرح ہندوستان میں صدیوں پرانی لکھی اور بولی جانے والی زبانیں تھیں اور ہیں۔ ان زبانوں کا اپنا مسکن تھا، اپنا ماحول، اپنا ایک مکان ہے۔ ان زبانوں میں تحقیق کا کام ہوتا ہے، ان زبانوں میں ہر موضوع پر کتابیں لکھی جاتی ہیں اور کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ان زبانوں میں بابا فرید جیسے عالمی معیار کے شاعر اور مفکر پیدا ہوئے ہیں۔ بابا گرونانک کی مقدس کتاب میں بابا فرید کے بے شمار اشعار شامل ہیں۔ مگر بابا فرید سلطان باہو اور بلھے شاہ کی زبان پنجابی کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ سے کشمیر تک بولی اور سمجھی نہیں جاتی تھی۔ حسین ابن منصور الحلاج کی شہادت کے چھ سو برس بعد سندھی زبان کے صوفی شاعر سچل سرمست نے الحلاج کے قول انا الحق کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا:
مذہبن ملک میں مانڑھو منجھایا
پیرن، پنڈتن، بزرگن بیحد بھلایا
کے نمازوں نوڑی پڑھن، کن مندر وسایا
اوڈوکین آیا، عقل وارا عشق کھے
معنی:مذاہب نے لوگوں کو الجھن میں ڈال دیا ہے، پیروں، پنڈتوں، بزرگوں، نے مخمصوں میں ڈال دیا ہے، کچھ لوگ جھک کر نماز پڑھتے ہیں، کچھ نے مندر بسایا، مگر یہ عاقل عشق سے روبرو نہیں ہوئے۔
سچل سرمست کے اس بیت میں لفظ عشق فنا فی اللہ کی تصدیق کرتا ہے، وحدت الوجود کی گواہی دیتا ہے۔ تصوف میں سچل سرمست کی رہ گزر وہی تھی جو رہ گزر بھگت کبیر کی تھی۔ جرمن اسکالر اینی میری شمل شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام جرمن اور انگریزی میں ترجمہ کرکے اپنے ساتھ لے گئیں۔ یورپ کی یونیورسٹیوں میں تصوف پر لیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر اینی میری شمل نے حاضرین کو جب شاہ لطیف کے اشعار سنائے تو سننے والے کچھ دیر کے لئے اس تاثر میں گم رہے کہ وہ مثنوی مولانا روم سن رہے تھے۔ حاضرین کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ تصوف کی بلندیوں تک پہنچنے والے کسی ایک خطے میں پیدا نہیں ہوتے اور کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہتے۔ ہم محدود ہوتے ہیں، ہماری رسائی ان تک نہیں ہوتی، اس لئے ہم خسارے میں رہتے ہیں۔ شاہ لطیف کا ایک بیت سنیے:
مولنا طور سینا، سدا سنیاس
فکر فرہی ہتھ میں، ماٹھ مطالع کن
ترجمہ معنی:سنیاسیوں کے گھٹنے طور سینا ہوتے ہیں،
گھٹنوں میں دے کر وہ سوچ کی تختی پڑھتے ہیں۔
صدیوں پرانی ایک مکمل زبان جس میں اخبار مخزن اور کتابیں شائع ہوتی ہیں اور پرائمری سے پی ایچ ڈی تک پڑھائی جاتی ہے۔ سندھی زبان کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ تک نہیں بولی جاتی تھی۔ صرف ایک اردو زبان کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ سے کشمیر تک بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ یہ ماجرا میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں بہت حیران ہوتا تھا۔ اس غیر معمولی حقیقت کو کوئی سمجھا نہیں سکتا، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ حاکموں کی زبان تیزی سے پھلتی پھولتی ہے۔ کیا اردو زبان ہندوستان پر حملہ آور کسی حکمراں کی زبان تھی؟ اس موضوع پر ہم آنے والے منگل کے روز سوچیں گے۔

.
تازہ ترین