• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنے وسیع موضوع کو کالم میں سمونا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملکوں اور قوموں کو بنانے، بگاڑنے، جوڑنے اور توڑنے میں قیادت کا کردار مرکزی اور بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ میرا ایک استاد کہا کرتا تھاکہ اگر ڈپٹی کمشنر نالائق یا بدنیت ہو تو ضلع کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن اگر استاد بدنیت اور جاہل ہو تو وہ نسلیں تباہ کر جاتا ہے اور اگر لیڈر نالائق ہو تو وہ ملک و قوم کا ستیاناس کرجاتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے قیادت کے فقدان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور غیرملکی و ملکی مصنفین کی اکثر کتابوں میں اس نوحے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہماری قیادت کی نالائقیوں اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی۔ یہ داستان طویل ہے لیکن مشرقی پاکستان کی جغرافیائی دوری، زبان و کلچر اور سماجی و سیاسی اختلافات کو بھانپتے ہوئے علیحدگی کے خطرات کا اظہار قیام پاکستان کے تھوڑی دیر بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ میری کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ میں بہت سے غیر ملکی مصنفین کے حوالے دئیے گئے ہیں جنہوں نے اس خطرے کا اظہار 1950 کی دہائی میں ہی کردیا تھا۔ مولانا ابوالکلام کی پیش بینی اپنی جگہ، خود ہمارے صف اول کے رہنما سردار عبدالرب نشتر نے1955-56میں اپنی سوانح عمری میں انتباہ کردیا تھا کہ اگر کسی وقت پاکستان میں مارشل لا لگا تو مشرقی پاکستان علیحدگی کی راہ پر چل پڑے گا۔ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر1971 میں فوجی حکومت کی بجائے پاکستان کا اقتدار کسی ایسی سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہوتا جو اہلیت اور سیاسی بصیرت سے مالا مال ہوتی تو سیاسی بحران کا حل بھی نکل آتا اور پاکستان بھی متحد ہوتا، اگر یحییٰ خان بھی آرمی ایکشن کی بجائے انتقال اقتدار کی راہ ہموار کردیتے اور بھٹو کو شریک اقتدار کرنے کا فارمولا طے ہوجاتا تو پاکستان کا اتحاد محفوظ رہ سکتا تھا، لیکن آپ اس جغرافیائی فیکٹر کا کیا کریں گے کہ مشرقی پاکستان کا بارڈر ہندوستان کے ساتھ منسلک تھا، مغربی پاکستان ایک ہزار میل سے زیادہ کے فاصلے پر تھا اور ہندوستان نے ہمارے اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھا کر مکتی باہنی کو فوجی تربیت دی ا ور پھر فوجی قوت سے مشرقی پاکستان کوفتح کرلیا۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار مکتی باہنی نہیں بلکہ ہندوستانی فوج کے سامنے ڈالے تھے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی ہے اور کشمیری ہندوستانی غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔کیا ہندوستان کی مانند پاکستان کشمیری حریت پسندوں کو فوجی تربیت دے کر ان کی آڑ میں کشمیر کو فتح کرسکتا ہے؟ بالکل نہیں کیونکہ کشمیر ہندوستان سے جڑا ہوا ہے، ہندوستان کی فوجی قوت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔جہاں تک پیش گوئیوں کا تعلق ہے تو آزادی کے بعد ہندوستان کے ٹوٹنے کی ان گنت پیش گوئیاں کی گئیں۔مجھے لنڈن ٹائمز کا ایک اداریہ بھی یاد ہے جس میں ایک درجن آزادی کی تحریکوں کا حوالہ دے کر ہندوستان کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن ستر برس گزر چکے اور ہندوستان متحد ہے، آزادی کی تحریکیں کمزور پڑچکی ہیں البتہ مذہبی انتہا پسندی ہندوستانی معاشرے کے لئے سب سے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ہندوستان کو اس کے سیاسی و جمہوری نظام اور قیادت نے ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ ہماری سیاسی و فوجی قیادتوں کی نااہلی نے ملک توڑ دیا۔ یہ ایک طویل اور دردناک داستان ہے جسے کالم میں بند نہیں کیا جاسکتا۔
آج کل ڈان لیکس کے سبب سول ملٹری تعلقات زیر بحث ہیں اور خود ا س مسئلے کو طول دینے اور بحران کی شکل دینے میں حکومتی پالیسیوں کا عمل دخل ہے ورنہ اسے گفتگو کے ذریعے مصالحانہ انداز اختیار کرکے شروع ہی میں حل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ و سیاست کا طالبعلم ہونے کے ناتے مجھے علم ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی ہماری تاریخ میں پیوست ہیں۔ تلخ سچ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کے ایک غلط فیصلے نے پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس میں تباہی کے بیج بو دئیے۔نوجوان کیا جانیں کہ وہ کون سی غلط اینٹ تھی جس کے رکھنے کے بعد عمارت کی شکل ہی بدلتی چلی گئی۔ ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد وفات پاگئے۔ تمام تر الزامات اور تنقید کے باوجود لیاقت علی خان نے جمہوری تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور سول ملٹری تعلقات اپنی حدود و قیود میں رہے۔ فوج خالصتاً پروفیشنل آرمی رہی اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان سروس میں توسیع کے لئے سیکرٹری ڈیفنس کے دفتر کے چکر لگایا کرتے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت ایک ایسا سانحہ تھا جس نے مسلم لیگی قیادت کی اندرونی دھڑے بندی، نااہلی ا ور سازشوں کے سبب بیوروکریسی کے لئے اقتدار کا دروازہ کھول دیا۔ بنگالی گروپ کے اصرار پر گورنر جنرل ناظم الدین وزیر اعظم بن گئے جو نہایت کمزور، شریف النفس انسان تھے اور قومی قیادت کی اہلیت سے محروم تھے۔ سیاستدانوں کو چھوڑ کر وزیر خزانہ بیوروکریٹ غلام محمد کا گورنر جنرل بنادیا جانا ایک ایسا حادثہ تھا جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ کمانڈر انچیف اور گورنر جنرل کے گٹھ جوڑ نے و زیر اعظم آفس کو ’’تھلے‘‘ لگالیا اور پھر وزیر اعظم کو ڈسمس کردیا۔اگلے سال 1954میں دستور ساز اسمبلی کو منسوخ کرکے بیوروکریٹ انقلاب مکمل ہوگیا۔ محمد علی بوگرہ سابق سفیر وزیر اعظم، چوہدری محمد علی وزیر خزانہ،ا سکندر مرزا وزیر داخلہ اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع بن گئے۔1958 میں مارشل لا لگا کر عسکری بالادستی پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی جسے یحییٰ خان، ضیاء الحق اور مشرف کی فوجی حکومتوں نے مزید تقویت عطا کی۔ ہمارے قائدین کی محض ایک غلطی نے جمہوریت کو تابع فرمان بنادیا، اگر مسلم لیگ کی قیادت سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناظم الدین کو گورنر جنرل رہنے دیتی اور لیاقت علی خان کی جگہ سردار عبدالرب نشتر کو وزیر اعظم بنادیتی تو اغلب امکان ہے کہ جمہوری عمل جاری رہتا، آئین جلد بن جاتا، عام انتخابات ہوجاتے، پاکستان فوجی مداخلت کا شکار نہ ہوتا، نہ ہی مشرقی پاکستان الگ ہوتا اور نہ ہی آج ہم سول ملٹری تعلقات کا بحران دیکھ رہے ہوتے۔ مطلب یہ کہ ملکوں اور قوموں کا عروج و زوال کافی حد تک قیادت کی اہلیت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اسی لئے مورخین کہتے ہیں کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا اور اگر یہاں جمہوری عمل اور جمہوری ادارے مضبوط ہوتے تو ملک نہ ٹوٹتا۔ سول ملٹری تعلقات کے علاوہ افغانستان سے چپقلش بھی قوم کے لئے باعث پریشانی ہے۔ سچ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی بھی قیادت کی بصیرت کا امتحان ہوتی ہے۔ بلاشبہ افغانستان سے ہمارے تعلقات عام طورپر غیر یقینی کا شکار رہے ہیں لیکن مت بھولئے کہ 1947میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف واحد ووٹ دینے والا افغانستان بھٹو دور کے آخری حصے میں پاکستان کے اتنا قریب آگیا تھا کہ بھٹو پاکستان افغانستان کنفیڈریشن کا خواب دیکھ رہا تھا۔ بھٹوسیاسی بحران کا شکار ہو کر اقتدار سے محروم نہ ہوتا تو یہ خواب حقیقت بننے والا تھا۔ افغان جہاد، طالبان کا دور حکومت اور نائن الیون کا ذکر کیا کروں لیکن یہ ہماری نااہلی تھی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزشتہ کچھ عرصے میں افغانستان ہندوستان کا سیٹلائٹ بن گیا۔ ہم مواقع ضائع کرتے گئے اور ہندوستان فائدہ اٹھا کر افغانستان کے اندر گھستا چلا گیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ افغانستان ہمارا بازو بنتا ، دوستی کا معمولی سا عندیہ اشرف غنی کے دوروں سے ملا لیکن ہماری غیر فعال حکمت عملی نے افغانستان کو دشمن بنادیا اور ایران کی قربت سے محروم کردیا۔ اب ہندوستان اپنی حکمت عملی کے طفیل ایک طرف افغانستان پر غالب ہے اور دوسری طرف بشکریہ ایران گوادر کے مقابلے میں چا بہار میں موجود ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قوموں کا عروج و زوال خاصی حد تک قیادت کی اہلیت و بصیرت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ کالم طویل ہوگیا ہے۔

.
تازہ ترین