• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس پر دوعدد ٹوئٹ کئے گئے جسے جمہوریت اور شریفوں کی حکومت پر ظاہر ہونے والے اثرات کے اعتبار سے ٹوئٹ ون اور ٹوئٹ ٹو قراردیا گیا۔ٹوئٹ ون کے بعد تویوں تاثر دیا جارہاتھاکہ
جی کا جاناٹھہر گیاصبح گیاکہ شام گیا
ٹوئٹ ٹو کے بعد غلط فہمیوں کے بادل چھٹ گئے اور مطلع صاف ہوگیا۔تاریخی پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جمہوریت ،آئین اورجمہوری نمائندوں کی سپر میسی کو تسلیم کیاگیا۔ تجزئیات اور تبصروں میں یہ بھی کہاجارہاہے کہ افغانستان سے مختصر جنگ اورایرانی جرنیل کی دھمکی نے سمجھوتے کے عمل کو تیز کیا ورنہ تو کورکمانڈرکانفرنس اس لیکس کو سیکورٹی بریچ یعنی سیکورٹی میںشگاف قرار دے چکی تھی۔پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں یہ گھڑی پہلی بار آئی ،لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے قائدین کو بھی شاید ایسی آئیڈیل صورت حال میسر نہ آسکی ۔دہائیوں کے تنائو کے بعد عسکری قیادت نے پہلی بار علیٰ الاعلان کہاکہ فائنل اتھارٹی وزیر اعظم ہیں اور سول قیادت کو بالادستی حاصل ہے ورنہ تو آئین کو کاغذایک ٹکڑا قراردیاجاتارہا
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کے لئے
ٹوئٹ ٹو کے بعد سوشل میڈیا پر ٹوئٹس کا سیلاب آگیا۔ٹوئٹر پر دکھائی دئیے چند دلچسپ ٹوئٹس میں راقم الحروف کی روح داری بھی ملاحظہ ہو۔ٹوئٹ اپنااپنا،جلنے والے کا ٹوئٹ کالا،ہارن دے کر ٹوئٹ کریں،پپویار ٹوئٹ نہ کر، سواری اپنے ٹوئٹ کی حفاظت خود کرے، ٹوئٹ کرمگر پیار سے ،یہ ٹوئٹ نہ ہوگی ،ہم ٹوئٹ کرچکے صنم،سولہ برس کی بالی عمر کو ٹوئٹ ، تیرے ٹوئٹوں کی میں دیوانی او دلبر جانی ، پنا کی تمنا ہے کہ ٹوئٹ مجھے مل جائے ۔۔۔ غزل کی بحر میں کئے گئے چند ٹوئٹس پڑھیے۔ میں ٹوئٹ تھا کسی اور کا مجھے سوچتاکوئی اور ہے۔ہنگامہ ہے کیوں برپاتھوڑی سی جو پی لی ہے ،ڈاکہ تو نہیں ڈالاٹوئٹ تو نہیں کی ہے۔ غزل کی بحر میں ٹوئٹ بازی کا ذکر ہوتو مولانا حسرت موہانی اور غلام علی کی یاد بھی آتی ہے کہ …چپکے چپکے رات دن ٹوئٹ کرنا یاد ہے …ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے … لیکس کے معاملہ میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی تھے جن کوسامنے لانے کا مطالبہ کیا گیاتھا ۔اس مطالبے کو دھرمیندر اور ہیمامالنی پر فلمائے گیت سے جوڑ کر سردھنئے۔۔۔ ٹوئٹ گرل کسی شاعر کی غزل ٹوئٹ گرل ،کسی جھیل کا کنول ٹوئٹ گرل ،کبھی تو ملے گی، کہیں تو ملے گی ،آج نہیں تو کل ٹوئٹ گرل…
اسی طرح کچھ قابل ذکر پنجابی ٹوئٹس ملاحظہ کیجئے۔چپ کر دڑ وٹ جا نہ ٹوئٹ دا کھول خلاصہ(چپ کر دم سادھ لے نہ ٹوئٹ کھول خلاصہ ) جمہوری اور عسکری اداروںکے باہمی رشتوں کو مضبوط کرتے ہوئے کچھ جمہوری رشتہ دار ہم سے بچھڑ بھی گئے جن میں برادرم پرویز رشید شامل ہیں ۔ان کی خدمت میں عنایت حسین بھٹی مرحوم کا بھولابسرا ٹوئٹ حاضرہے۔ دنیا ٹوئٹ دی اویار ،مطلب ہووے تے ٹوئٹ وی کردے ظالم دنیا دار۔اس کہانی میں پرویز رشید کے ساتھ ہونے والے سلوک کو فرازاورشہنشاہ غزل مہدی حسن کی زبانی یوں بھی بیان کیاجاسکتاہے کہ…ٹوئٹ تھا جل بُجھاہوں ہوائیں مجھے نہ دو…میں کب کا جاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو… اگرچہ ڈان لیکس کا معاملہ حل ہوگیاہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجارہاہے کہ اس سازش کو بے نقاب کرنا اور اس کے اصل ذمہ داران کو سزادینا بھی آئینی ذمہ داری ہے جسے پوراکرنا چاہئے۔یہ معاملہ حل ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ پردے میں بھی رہ گیاہے ،پردے میں چھپے حقائق کے لئے ملکہ ترنم نورجہاں اور بابرہ شریف کی جگل بندی یاد کیجئے جس میں بابرہ شریف ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہوئے اپنے ہیروندیم کو کہتی ہیں
منڈیا ٹوئٹ چھڈمیرانئیں شرماں دا کنڈلائی دا (لڑکے میرا گھونگھٹ چھوڑو،شرم وحیاکا پردہ چاک نہیں کرتے )۔ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے مشہور زمانہ گیت ’’وے چھڈ میری وینی نہ مروڑ‘‘ کو ٹوئٹ کا تڑکا دیکھئے ’’وے چھڈمیرا ٹوئٹ نہ مروڑ‘‘۔ نورجہاں کے گائے دوسرے گیت بھی ٰخاصی تعداد میں شیئرکئے گئے… ٹوئٹ دی پانواں چھنکار… اے وطن کے سجیلے جوانو …میرے ٹوئٹ تمہارے لئے ہیں… خلیل الرحمان قمر کی شاعری اور استاد راحت فتح علی خاں کی گائیکی کے ساتھ ٹوئٹ کی جگل بندی ملاحظہ کیجئے
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
ٹوئٹ بھی ضروری تھا مکرنا بھی ضروری تھا
ضروری تھاکہ ہم دونوں طوائف آرزو کرتے
مگر پھر ٹوئٹوں کا بدلنا بھی ضروری تھا
سیاست سے ثقافت کے میدان میں جھانکیں تو وہاں بھی پارٹ ون اور پارٹ ٹو کے چر چے ہیں۔ باہو بلی پارٹ ون نے چھ سو کروڑ روپے کمائے تھے۔باہو بلی پارٹ ٹو نے 1200کروڑ روپے کمائے ہیں ۔اس طرح یہ شیئرز 1800کروڑ بنتے ہیں جو کسی ایشیائی فلم کا ایک منفرد ریکارڈ ہے ۔ ٹی وی چینلوں پر ایسے تبصرے بھی جاری ہیں جن میں اس جمہوری ،قومی اوراجتماعی عوامی کامیابی کو محض اتفاق قراردیا جارہاہے ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ ابھی بہت سے دریا عبور کرنا باقی ہیں یعنی
اک اور ’’ٹوئٹ ‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اتر تو میں نے دیکھا
ہر وقت جی کا جلانا اچھی عادت نہیں کبھی کبھی جی بہلانا بھی چاہیے۔باہوبلی کے ریکارڈ بزنس کی طرح ہمارے ہاں بھی اب کچھ خوش کن ریکارڈ بن رہے ہیں وگرنہ تو خاص وقفوں کے ساتھ فضائوں میں۔۔ میرے عزیز ہم وطنو!!! کی صدائیں گونجنے لگتی تھیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک طرف تو آئین کی دھجیاں بکھیری جاتی رہیں اوردوسری جانب نظریہ ضرورت کے ساتھ ساتھ ایسا ملی گیت سنگیت تخلیق کیاجاتارہاجس میں آمروں کو اس وقت کی عظیم مغنیائوں نے ’’میرا ماہی چھیل چھبیلا،ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی ‘‘کہہ کر لبھایا۔ قوم کو اپنے کمانڈر انچیف قمر جاوید باجوہ پر فخر ہے جن کی مرضی اورمنشا سے ٹوئٹ واپس ہوا اور اس طرح جمہوریت کو اس کی کھوئی ہوئی طاقت اورمقام واپس مل سکا۔ہمارے خیال میںقمرجاوید باجوہ کے اس عمل سے ملکہ ترنم نورجہاں نے دل وجان سے یہ کہاہوگاکہ …پتر ہٹاں تے نئیں وکدے…

.
تازہ ترین