• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو رستہ عام ہوجائے اس سے بچنا چاہئے۔ بالکل اسی طرح جو موضوع ضرورت سے زیادہ’’مقبول‘‘ ہوجائے اس سے بھی گریز ہی بہتر ہے اور اسی لئے میں ’’سول ملٹری تعلقات‘‘ کو بائی پاس کرکے نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس موضوع پر آج کل ہر طرف دانش کے دریا بہہ رہے ہیں، حکمت و بصیرت کے ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں۔ ہر دوسری تیسری تحریر کا یہی موضوع ہے جو میرے نزدیک غیر منطقی بلکہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ جن دو کے تعلقات پر یہ فکری ایکسرسائزہورہی ہے، ان میں سے ایک’’پارٹی‘‘ کا تو سرے سے وجود ہی نہیں پھر ان کے درمیان تعلقات پر بحث کیسی؟ کیونکہ’’ملٹری‘‘ تو بھرپور انداز میں موجود ہے لیکن یہ’’سول‘‘نام کی بلا کہاں پائی جاتی ہے خصوصاً جب ہم اپنی’’پارلیمنٹ‘‘ کو’’سول‘‘کا سمبل سمجھیں۔ اس پیراڈوکس کو سمجھنے کیلئے ہمیں ان دو لفظوں کی’’تعریف‘‘ ڈھونڈنا پڑے گی اور ان کی تاریخ میں گھسنا ہوگا۔ملٹری کا پس منظر کیا ہے؟ یہ ملی ٹیرس Militaris سے نکلا جو لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ فرانسیسی زبان میں اسے ملی ٹیئرMilitaireکہتے ہیں۔ انگریزی زبان تک آتے آتے یہ ملٹری ہوگیا جس کا مطلب ہے سپاہی، ہتھیار بند دستے، مسلح افواج، یہ تو ہوگئی اس لفظ کی تاریخ اور تعریف جس پر افواج پاکستان سو فیصد پورا اترتی ہے۔اب چلتے ہیں’’سول‘‘ کی طرف تو یہ بھی لاطینی زبان کے ایک لفظ سوس(Civis)سے شروع ہوا اور پھر بتدریج لاطینی میں ہی سیوی لیس(Civilis)ہوگیا جو چلتے چلتے پرانی فرانسیسی اور انگریزی تک پہنچ کر ’’سول(Civil)‘‘ بن گیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے اس لفظ کی تعریف Definition کا جو کچھ اس طرح سے ہے۔ "Relating to ordinaty people and their concern"یعنی’’عام لوگوں، شہریوں سے تعلق رکھنے والے عام آبادی کے لئے محسوس کرنے والے خوش اخلاق اور شائستہ لوگ‘‘ تو اللہ کو حاضر و ناظر جان کر بتائیے کہ کیا یہ لوگ یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی بھاری اکثریت اس تعریف پر پورا اترتی ہے؟ کیا سچ مچ کے حقیقی عوام کے ساتھ ان کے نام نہاد ووٹ بٹورنے، خریدنے، چھیننے یا چرانے کے علاوہ ان کا کوئی قلبی، ذہنی، روحانی، جذباتی رشتہ ہے؟ اگر ہے تو میں یقیناً بکواس کررہا ہوں۔ رہ گیا ان لوگوں کا خوش اخلاق اور شائستہ ہونا تو انہیں ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھیں۔ انہیں سپریم کورٹ کے باہردیکھیں، انہیں ان کے جلسوں میں دیکھیں اور پھر پارلیمنٹ کے اندر ان کی اخلاقیات اور شائستگی ملاحظہ فرمائیں۔ میں تبصرہ نہیں کررہا، صرف زمینی حقائق کی طرف آپ کو متوجہ کررہا ہوں۔مختصراً یہ کہ جسے یا جنہیں ہم روا روی میں عادتاً اور روایتاً’’سول سول‘‘ کہے جارہے ہیں وہ تو اس کی تعریفDefinition)میں فٹ ہی نہیں بیٹھتے، تو بھائی میں اسی لئے کہتا ہوں کہ’’سول ملٹری تعلقات‘‘کا سوال ہی فروعی ہے کیونکہ ملٹری تو ملٹری ہے لیکن سول تو سول ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو کہاں ہے؟غور کیجئے لفظ ملٹری کی تاریخ اور تعریف میں کہیں عوام کے ساتھ تعلق، تعلق خاطر یا اخلاق و شائستگی کا کوئی حوالہ نہیں جبکہ’’سول‘‘ تو اس کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں یعنی بقول بابا ظہیر کاشمیری مرحوم
سیرت نہ ہو تو کاکل و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
رہ گئی اخلاقیات کی بات تو ان میں سےکون ہے جو اقتدار میں رہا اور کرپٹ نہیں یا کرپٹ مشہور نہیں اور اس سے بڑا المیہ کیا کہ آپ کرپٹ نہ ہوں اور کرپٹ مشہور ہوجائیں کہ جو اپنی ساکھ نہیں سنبھال سکتا، ملک معاشرہ کو خاک سنبھالے گا؟مختصراً یہ کہ جب کبھی سچ مچ کے سول ہوجائیں گے، ملٹری کے ساتھ تعلقات بھی خود بخود نارمل ہوجائیں گے کیونکہ سچ مچ سول ہوجائیں گے تو ان کے عمومی رویے بھی تبدیل ہوجائیں گے اور جب رویے تبدیل ہوں گے تو آپس کے رشتے بھی تبدیل ہوجائیں گے۔ تب تک موجاں ای موجاں اور فوجاں ای فوجاں۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ سول ملٹری تعلقات کے حوالہ سے مغرب کو متوازن اور مہذب ہوئے تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے۔ عالم اسلام میں توصدیوں پہلے عالم یہ تھا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے ناقابل شکست دیو مالائی حیثیت کے حامل جرنیل کو معزول کرتے ہیں تو ان کی پیشانی پر بل نہیں آتا کیونکہ سول واقعی سول تھے بلکہ سول ہونے کے انتہا پر فائز تھے۔پہلے سرے محل اور پاناما وغیرہ سے نکل کر’’سول‘‘ تو ہو جائیں، پھر سول ملٹری تعلقات پر بھی روشنی یا اندھیرا ڈال لیں گے۔

.
تازہ ترین