• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے شک انٹرنیٹ نے لوگوں کو ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا۔نئی نئی دریافتوں اور ایجادات سے ہمکنار کیا لیکن اس کے ساتھ بالکل نئے طرز کے خوفناک جرائم نے بھی جنم لیا۔سائبر کرائم شروع ہوئے جوسائبر جنگوں تک پہنچ گئے۔ گزشتہ دہائی میں سائبر حملوں کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر رہیں۔ 2007ءمیں یورپی ملک اسٹونیا کے سسٹمز تباہ کر دئیے گئے۔ چین، امریکہ، جارج میں بڑے پیمانے پر منظم سائبر حملے ہوئے۔ 2010 ءمیں ایک وائرس اسٹکس نیٹ سامنے آیا جس نے ایران کے نیوکلیئرپروگرام کو کافی بڑا نقصان پہنچایا۔ ان سائبر حملوں میں نہ تو کینیڈا اور امریکہ کے محکمہ ہائے دفاع کے کمپیوٹر اور نیٹ ورکس بچ سکے اور نہ روس کی ملٹری انسٹالیشنز۔ وہ جنوبی کوریا کے بینک ہوں یا براڈ کاسٹنگ ادارے ہوں یا دفاعی نظام، قومی الیکشن ہوں یا بجلی اور پانی کے نظام، تمام کے تمام ہی سائبر حملوں کی زد پر رہے ہیں اوردنیا بھر کو قومی و ملکی سلامتی کے نقصان کے ساتھ ساتھ کھربوں کا مالی نقصان بھی پہنچا چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ہی دیکھیں تو پاکستان کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ کئی بڑے بینک، پاکستان کی تقریباً تمام ٹیلی کام کمپنیز کے نیٹ ورکس، پاکستان کے کئی سرکاری اداروں کی ویب سائٹیں اور نیٹ ورکس ہیکنگ یا سائبر حملوں سے نا قابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ دنیا اس وقت بری طرح سائبر حملوں کی زد میں ہے۔ گزشتہ ہفتے دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کے دو لاکھ سے زائد کمپیوٹر "وانا کرائی" نامی ایک ایسے وائرس کی گرفت میں آ گئے جس کی شدت کے متعلق یورو پول کے ڈائریکٹر کے الفاظ ہیں کہ "یوروپول ہر سال 200 سے زائد سائبر سیکورٹی آپریشن چلاتا ہے لیکن آج تک اس شدت کا حملہ ہم نے پہلے نہیں دیکھا"۔ یہ وائرس کمپیوٹر میں گھس کے تمام ڈیٹا کو انکرپٹ کر دیتا ہے اور اس ڈیٹا کی واپسی کیلئے متاثرہ ادارے یا افراد سے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے اور حیرت انگیز بات ہے کہ تاوان ادا کئے بغیر کوئی کمپیوٹر بھی اس وائرس سے رہائی نہیں پا سکا۔ حتی کہ برطانوی نیشنل ہیلتھ سروسز، روس کی وزارت داخلہ،ا سپین کی ٹیلی کام کمپنی ٹیلیفونیکا، امریکہ کی کئی بڑی کمپنیاں مثلاً فیڈیکس، فرانس کی کاریں بنانے والی کمپنی ’’انو‘‘ (Renault) اور پاکستان کے شوکت خانم اسپتال جیسے اداروں کے کمپیوٹر بھی اس مہلک وائرس کی گرفت میں آئے بغیر نہ بچ سکے۔ ایسے واقعات نئے نہیں ہیں۔ ہیکرز کافی عرصہ سے ایسی حیران کن وارداتیں کرتے چلے آ رہے ہیں مگر یہ سائبر کرائم کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ سائبر حملوں کا معاملہ اب صرف انفرادی نہیں رہا، مبینہ طور پر حکومتیں بھی اس چیز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ جب صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے تو سی آئی اے نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے سائبر کرائم کے ذریعے صدر ٹرمپ کی جیت کےلئے دھاندلی کرائی ہے۔ دنیا اس وقت انٹرنیٹ وار کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ وہ اس میدان میں اتنے آگے بڑھ جائیں کہ انہیں کسی اور ہتھیار کے استعمال کی ضرورت ہی نہ رہے وہ انٹرنیٹ کی وساطت سے مخالف ملک کی ہر چیز کو سیز کردیں، نہ جہاز اڑ سکیں نہ ایٹم بم چل سکیں۔ نہ ملک میں کوئی کاروبار ہو سکے یعنی اب روایتی جنگ تو کجا جوہری جنگ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ بالکل ویسی ہی ایک جنگ ہو گی جیسی ہم دہشت گردی کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ بظاہر یہ کسی ملک کے خلاف جنگ نہیں مگر ہمارے ہزاروں لوگ اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ مجھے پاکستان پر اس نئی جنگ کے بادل امڈتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ دشمن ملک بہت جلد ایک بڑے پیمانے پر پاکستان کے ساتھ منظم سائبر جنگ شروع کرنے والا ہے اور شاید پاکستان ابھی تک اس جنگ کے لئے مکمل طور پر تیار ہی نہیں۔ سائبر کرائم کے کسی حملہ کو روکنے کے لئے ابھی تک ہم نے سرکاری سطح پر کوئی منظم کام نہیں کیا۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف جو دنیا کی نامور ترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے تعلیم یافتہ بھی ہیں اور گزشتہ کچھ سالوں میں پنجاب میں ہونے والی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا باعث بننے والا اصل دماغ بھی۔ وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں "اگلی جنگ سائبر وار ہے اوراس معاملہ میں ہم بہت گئے گزرے ہیں ہم نے کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بنایا جو ایسے کسی حملے کو روکنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ حتی کہ ہمارے نیوکلیئر پروگرامز کے کمپیو ٹر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی کے کمپیوٹر بھی خطرے میں ہیں۔ ہمارا بینکنگ نظام کسی وقت بھی تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا کمیونکیشن کا نظام برباد کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف نے پچھلے ماہ حکومت پنجاب کے ایما پر ڈاکٹر فاتح الدین سے ایک ملاقات کی جس کا ایجنڈا ڈاکٹر فاتح الدین کی سائبر فورینسک اور سائبر سیکورٹی میں مہارت کا پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کیلئے حصول تھا۔ ڈاکٹر فاتح الدین ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈویژن کے چیف فورینسک آفیسر کے طور پر بھی خدمات ادا کر چکے ہیں اور اب دنیا بھر میں سائبر حملوں کا نشانہ بننے والے اداروں کو اپنی خدمات دیتے ہیں۔ مجھے امید واثق ہے کہ ڈاکٹر عمر سیف کے وژن اور ڈاکٹر فاتح الدین کی سائبر سیکورٹی میں مہارت کے امتزاج سے پنجاب میں صوبائی سطح پر ایک ایسا ادارہ یا پی آئی ٹی بی کا ایک ذیلی ادارہ ضرور بنایا جا سکتا ہے جو نہ صرف صوبے بلکہ قومی سطح پر بھی حساس نیٹورکس اور اداروں کو سائبر محفوظ بنانے میں رہنمائی اور تکنیکی مدد مہیا کرنے کا اہل ہو۔ ملک کو سائبر حملوں سے بچانے کیلئے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں سب سے پہلے تو ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو ایسے حملوں کی روک تھام کیلئے تفصیلی لائحہ عمل ترتیب دے جس میں نہ صرف سائبر حملوں کے بعد ایمرجنسی رسپانس مرتب کیے جائیں بلکہ حملوں سے قبل ان کے سدباب پر بھی غور کر کے اقدامات کیے جائیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کو ایک ایسا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جو امریکہ، برطانیہ، روس اور اسرائیل وغیرہ کے بنائے ہوئے مہنگے سیکورٹی سافٹ ویئر خریدنے کی بجائے انڈسٹری کے اشتراک سے پاکستان میں سائبر سیکورٹی سافٹ ویئر کا پورٹ فولیو ڈویلپ کروائے جو نہ صرف سستے ہوں بلکہ ان کا سورس کوڈ بھی ہمارا اپنا لکھا ہواہو جس میں بیک ڈور ہیکنگ کے ذریعے انفارمیشن لیک ہونے کے امکانات کم سے کم ہوں بالکل اسی طرح جیسے ہماری پاک افواج جنگی آلات پر بیرونی انحصار کم سے کم کرتے ہوئے آلات کی تیاری خود کرنے میں مصروف عمل ہے۔
میری وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے گزارش ہے کہ جیسے انھوں نے ذاتی دلچسپی لے کر ڈاکٹر عمر سیف کے تعاون سے پنجاب کے تقریباً تمام حکومتی اداروں کو ڈیجیٹلائز کر کے جدت سے ہمکنار کیا ہے اسی طرح وہ سائبر وارفیئر اور سائبر سیکورٹی پر بھی ذاتی دلچسپی لے کر اپنے صوبے سے ہی آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر فاتح جیسے پاکستانی ماہرین کی زیر نگرانی ایک ایسا ادارہ بنائیں جو باقی ملک کیلئے ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہو۔


.
تازہ ترین