• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی عدالت، اٹارنی جنرل کلبھوشن کیس میں پاکستان کی نمائندگی کرینگے

اسلام آباد(انصار عباسی)اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے، یہ انکشاف کرتے ہوئے کہ وہ اب بذات خود عالمی عدالت میں کلبھوشن کے مقدمے میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے، کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے بھارت کے خلاف کیس میں پاکستانی وکیل کی اختیار کی گئی اپروچ فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ حکومت کی مشاورت سے تیار کی گئی تھی۔ جمعہ کے روز دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی سی جے کے سامنے کیس میں پاکستان کا دفاع کرنے والا وکیل نہ صرف عالمی ثالثی میں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا ہے بلکہ اس حساس مقدمے کو لڑنے کے لئے اسے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کلیئرنس بھی حاصل تھی۔ وکیل بیرسٹر خاور قریشی کو 50 ہزار اسٹرلنگ پاؤنڈ ادا کیے گئے جبکہ پاکستانی وکیل کے برخلاف بھارتی وکیل نے اپنی خد ما ت فراہم کرنے کے لئے صرف ایک روپیہ وصول کیا۔ آئی سی جے کے دائرہ اختیار کے حوالے سے پاکستان کے مارچ 2017 کے اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر جاری پروپگنڈا بے محل اور غیر حقیقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’درست پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان نے ستمبر 1960 میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار پر غیرمشروط طور پر اتفاق کیا تھا۔ مارچ 2017 میں ہم نے استثنی، تحفظات اور شرائط کا اعلامیہ جاری کیا۔ اپنے تحریری بیان میں اس نمائندے کو شریک کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مذکورہ بالا تحفظات کو سمجھنے کے لئے آئی سی جے کی ویب سائٹ پر دستیاب اصل اعلامیے سے ملا کر دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 1960 کا اصل اعلامیہ تحفظات اور استثنی کے بغیر تھا۔ پاکستان نے مارچ 2017 سے قبل آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار پر دستخط کیے تھے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’’سادہ لفظوں میں ہم نے پہلے کوئی استثنی یا تحفظات پیش نہیں کیے تھے۔‘‘ اشتر اوصاف علی نے کہا کہ یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ جیسے ہم نے آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار پر مارچ 2017 میں غلط محرکات کی وجہ سے اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سچ نہیں ہے۔ ’’ہم نے 1960میں کسی استثنی کے بغیر دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے کے اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مارچ 2017 میں پاکستان نے پہلی مرتبہ اپنی سلامتی سے متعلق سمیت حفاظتی اقدامات تخلیق کیے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ کیس میں آئی سی جے معاملے کے اس پہلو کو نہیں دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ ویانا کنونشن اور کنونشن کا آپشنل پروٹوکول دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان دونوں نےا س پر دستخط کیے ہیں۔ یہ آپشنل پروٹوکول آئی سی جے کو رکن ریاست کے مابین تنازعات کے فیصلے کے لئے دائرہ اختیار اور پاور دیتا ہے۔ آئی سی جے اس پہلو کو دیکھ رہی ہے اور اس کو نہیں دیکھ رہی جس کا حوالہ سوشل نیٹ ورک اور الیکٹرانک میڈیا پر دیا جارہا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ اس سال مارچ میں جو مشروط تحفظات پیش کیے گئے تھے ان کے پیچھے بدنیتی پر مبنی محرکات یا مقاصد نہیں ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اگر ہمیں یہ اعلامیہ واپس لینا ہوتا تو ہمیں 1960 کے اعلامیے کی جانب واپس جاتے  جو بلا استثنی دائرہ اختیار دیتا ہے۔
تازہ ترین