• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک دوست ہیں جنہیں کسی کام میں مصروف دیکھ کر ان کے انہماک کے پیش نظر یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید وہ دنیا کی کوئی عظیم مہم سر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان سے اگر پوچھیں تو وہ تاثر بھی یہی دیں گے،لیکن اگر ان سے پوچھا نہ جائے بلکہ کچھ دیر تک ان کی ’’سرگرمیوں‘‘ پر صرف ’’کڑی نظر‘‘رکھی جائے تو پتا چلے گا کہ موصوف بازار سے دہی خریدنے کے لیے برتن تلاش کر رہے ہیں، ایک دفعہ میں ان کے ہاں گیا ،دوپہر کا وقت تھا، بھوک بہت لگی ہوئی تھی،مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر رونق آگئی،اس کا پتا ان کے چہرے سے نہیں،ان کی زبان سے چلا جب انہوں نے کہا ’’تمھیں دیکھ کر میرے چہرے پر رونق آ گئی ہے‘‘بس اس کے بعد سے وہ نچلے نہیں بیٹھے‘‘تم کھانا تو کھائو گے نا؟ ہاں کیوں نہیں کھائو گے بس ایک منٹ میں کھانا تمہارے سامنے ہو گا،مگر پہلے بتائو تم کھائو گے کیا؟ مرغی بھی پک سکتی ہے، مچھلی بھی تیار ہو سکتی ہے،پلائو بھی منٹوں میں تیار ہو جائے گا،کباب تو تمھیں اچھے لگتے ہیںنا؟کباب بھی پانچ منٹ میں تیار ہو جائیں گے، تمھیں سلاد کون سی پسند ہے رشین سلاد میں خود بہت اچھی تیار کر لیتا ہوں، اور ہاں وہ سوپ تو میں نے پوچھا ہی نہیں، سوپ کون سا پسند کرو گے چلو وہ تم مجھ پر چھوڑ دو، مگر سب سے پہلے تمھیں کو ئی مشروب پینا چاہیے، تمھیں کون سا جوس اچھا لگتا ہے،اورنج جوس چلے گا؟ گریپ فروٹ کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے،لیکن اگر میری مانو تو یہ سب کچھ چھوڑو،ایک ٹھنڈی ٹھاربوتل پیو، گرمیوں میں فریزر میں لگی بوتل پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور بس ٹھیک ہے، پہلے میں تمہارے لیے بوتل کا انتظام کرتا ہوں‘‘ اس کے بعد وہ بوتل کے انتظام میں کچھ اتنی تندہی سے منہمک ہوئے کہ لگتا تھا خدا جانے کس ’’بوتل‘‘ کا انتظام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ’’اوئے ارشد ادھر آئو،سائیکل پکڑو،ایک تھیلا بھی ساتھ لے لو، چوک میں سے گزر کر پہلی تین دکانیں چھوڑ کر بائیں ہاتھ چوتھی دکان ہے، وہاں جائو،وہاں ایک موٹا سا آدمی دھوتی باندھ کر بیٹھا ہو گا،اس سے نام پوچھنا، اگر وہ ظہور ہوا اسے میرا سلام کہہ کر کہنا کہ ایک ٹھنڈی سی بوتل دے دیں،اور پھر یہ بوتل احتیاط سے تھیلے میں ڈال کر لے آنا،مگر دیر نہیں لگنی چاہیے،بس آنا جانا کرو، لیکن تم سست آدمی ہو،یہ کام تم سے نہیں ہو گا،تم اندر جائو اور سلیم کو بھیجو سلیم خاصا ہوشیار لڑکا ہے،اسے کہو بھائی جان بلارہے ہیں سب کام چھوڑ کر جلدی سے آ جائے‘‘ اس دوران میں نے گھڑی دیکھی تو تین بج رہے تھے،مجھے اس وقت کہیں اور پہنچنا تھا،سو اپنی نشست سے اٹھ کر میں نے کہا ’’یار تمہارے پلائو،مرغ، مچھلی، کباب،رشین سلاد،جوس،بوتل وغیرہ کا بہت شکریہ،مگر اب تم مجھے اجازت دو،یہ سب کچھ پھر کبھی سہی‘‘۔
میں اس وقت اتنی جلدی میں تھا کہ رخصت ہوتے وقت اپنے اس دوست کو اس طوطے کا لطیفہ بھی نہ سنا سکا، جس کے گھر ایک دوسرا طوطا مہمان گیا،اور اس نے جاتے ہی کہا یار بھوک بہت لگی ہے،ذرا جلدی سے کھانے کا بندوبست کرو، یہ سن کر میزبان طوطے نے اڈاری ماری اور ایک دوسرے درخت پر بیٹھی چڑیا کے پاس جا کر اس کے کان میں کچھ سرگوشیاں سی کرنے لگا، تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو مہمان نے پھر کہا کہ یار بھوک بہت لگی ہے، ذرا کھانے کا جلدی سے بندوبست کرو، اس پر طوطے نے ایک بار پھر اڈاری ماری اور ایک کوے کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا، وہاں سے اڈاری مار کر وہ ایک مینا کے پاس گیا اور چہرے پر خاصے غور و فکر کے آثار پیدا کر کے اس کے ساتھ رازدارانہ سی گفتگو کرنے لگا، جب واپس اپنی شاخ پر آیا تو مہمان نے ڈھیٹ بن کر ایک بار پھر کہا یار کھانے کا کچھ کرو، بھوک بہت لگی ہے، جس پر میزبان طوطے نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا ’’یار لعنت بھیجو کھانے پر، تم میری بھاگ دوڑ دیکھو!‘‘ سو میں بھی اپنے اس دوست کی بھاگ دوڑ دیکھتا رہتا ہوں، اسے اگر کبھی ٹوکیں تو یہ ناراض ہو جاتا ہے،تاہم اس کی ایک ادا مجھے بہت پسند ہے،جس کے باعث اس کی باقی ’’ادائیں‘‘ بھول جاتی ہیں اور وہ اس کی یہی سرگرمی دکھانے والی ادا ہے، اس سے اور کچھ نہیں دل کو ڈھارس تو بندھتی ہے کہ کوئی آپ کی دلجوئی کے لیے اتنے سارے لفظوں کا اہتمام کر رہا ہے کیونکہ کچھ لوگ تو اتنا بھی نہیں کرتے۔ میں جب کبھی اپنے دوست سے ملتا ہوں تو وہ بندر یاد آجاتا ہے جو الیکشن کے نتیجے میں جنگل کی بلدیہ کا چیئرمین منتخب ہو گیا تھا، ایک دفعہ ایک گیدڑنی دوڑی دوڑی اس کے پاس آئی، اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور چہرے پر پریشانی کے آثار تھے، بندر نے پوچھا خیریت تو ہے اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ گیدڑنی نے کہا کہ شیر میرے بچوں کو کھانے آ رہا ہے، خدا کے لیے میرے بچوں کو بچا لو، بندر نے اس پر انتہائی تشویش ظاہر کی، اور پوچھا ’’تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘ گیدڑنی نے کہا ’’چار‘‘ یہ سن کر بندر چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گیا اور سوچ بچار کرنے لگا، گیدڑنی نے آہ و زاری کی اور کہا ’’شیر تھوڑی دیر بعد میرے بچوں کو کھا جائے گا،خدا کے لیے جلدی کرو!‘‘ یہ سن کر بندر درخت سے نیچے اترا اور گیدڑنی سے پوچھا ’’تم نے کیا بتایا تھا تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘ گیدڑنی نے کہا ’’چار‘‘ یہ سن کر بندر ایک بار پھر درخت پر چڑ گیا، اور گہرے غور و فکر میں مشغول ہو گیا، اس نے پھر گیدڑنی سے پوچھا ’’تمہارا شوہر زندہ ہے‘‘ گیدڑنی نے کہا ’’ہاں وہ اس وقت بچوں ہی کے پاس ہے مگر خدا کے لیے تم کچھ جلدی کرو‘‘! بندر نے کہا ’’ابھی کرتے ہیں‘‘ اور پھر درخت پر چڑھ گیا اتنے میں ایک گیدڑ آہ و زاری کرتا ہوا وہاں پہنچا اور اس نے بتایا کہ شیر اس کے بچوں کو کھا گیا ہے، یہ سن کر بندر درخت سے نیچے اترا، اس کے چہرے پر غم کی گہری لکیریں تھیں، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا گیدڑ کے پاس پہنچا اور کہا ’’بھائی بہت افسوس ہوا، مگر ہم اپنے طور پر جو کر سکتے تھے وہ کیا، باقی اللہ کے کاموں میں کسے دخل ہے؟‘‘ مجھے اپنے دوستوں اور صاحبِ اختیار لوگوں کی یہی ادا ئیں پسند ہیں، ورنہ اللہ کے کاموں میں تو واقعی کسی کو کوئی دخل نہیں!

.
تازہ ترین