• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہاں ہم جنرل باجوہ کے بیٹے کی تحسین اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں جن کی سوچ نسلِ نو کے لیے نئی امید ہے وہ کتنی بڑی بات کتنے سادہ پیرائے میں بیان کر گئے ’’ڈان لیکس پر پہلا فیصلہ کیا تو میرے بیٹے نے کہا کہ آپ نے ایک مقبول لیکن غلط فیصلہ کیا ہے جب دوسرا فیصلہ کیا تو بیٹے نے کہا کہ آپ نے غیر مقبول مگر درست فیصلہ کیا ہے آج کی نوجوان نسل سیدھی بات کرتی ہے‘‘۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ آج ہمیں ایسی ہی سیدھی اور سچی بات کرنے والی نسل کی ضرورت ہے۔ وطن ِ عزیز کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ظاہری پاپولیرٹی کے پیچھے بھاگنے کی بجائے تلخ حقائق کا ادراک کیا جائے، بحالیٔ صحت کی خاطر بارہا کڑوی دوائیاں بھی کھانی یا پینی پڑتی ہیں، اسی سے ہجوم اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر ایک مضبوط قوم بنتا ہے۔ ایک زمانہ تھا ہمارا برادر ملک ترکی کس پستی کا شکار تھا لیکن اتاترک کی ولولہ انگیز قیادت نے بظاہر سخت کڑوے فیصلے کرتے ہوئے اسے ایک قابل احترام جدید ترک قوم بنا دیا۔ کاش وطنِ عزیز کی قیادت بھی سستی شہرت یا عہدوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ’’کارتریاقی‘‘ کی ترکیب سوچے۔ آج اگرچہ سستی شہرت، مفادات اور پاپولیرٹی کے پجاری اس کا تیاپانچہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں لیکن تاریخ ہمیشہ آؤٹ پٹ کو دیکھتی ہے۔ اپنی قوم کے حق میں سچائی پر مبنی تلخ فیصلوں کی بجائے سستی شہرت کے لیے پاپولر فیصلے کرتے ہوئے وقتی مفادات تو اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ابدی طور پر ان سے اقوام کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جب فوجی آپریشن شروع کیا جا رہا تھا تو نہ صرف عسکری ادارے میں بلکہ مغربی پاکستان کے عوام میں بھی یہ ایک پاپولر فیصلہ تھا، جسے شک ہے وہ اس دور کے اخبارات نکال کر دیکھ لے، لیکن آج نصف صدی بعد فوجی ادارے کے اندر یا باہر کتنے لوگ ہیں جو اس کی حمایت میں رطب اللسان ہونا پسند فرمائیں گے؟ اس حوالے سے چاروں مارشل لاؤں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جب یہ فیصلے کئے جا رہے تھے تو یہ سب پاپولر فیصلے یا اقدامات تھے بڑا جوش، جذبہ اور ولولہ تھا مگر آج کسی بھی حقائق پسند اور باشعور فرد کے لیے ان کا دفاع کرنا کتنا مشکل ہے زیادہ تر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں ادارے کو اس میں ملوث کرنا چاہئے نہ ہی آرمی کو ایسے گند میں ملوث ہونا چاہئے ۔ کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل ہمیں ہنگامی مفادات سے بلند ہو کر قوم کے دیرپا اور دائمی فائدے یا استحکام کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے چاہے وہ بظاہر کیسا خوشنما ہو لیکن مستقبل میں باعثِ شرمندگی قرار پائے۔
آرمی چیف نے اپنی اور ادارے کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں’’ہارڈر ایریاز‘‘ میں کام کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود دوسری جانب حالات یہ ہیں کہ بعض عناصر کی جانب سے پہلے مجھے اور پھر فوج کو ہدف تنقید بنایا گیا‘‘۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ تنقیدی جائزے کا مطلب کسی کی ذات پر بہتان باندھنا یا ادارے کو بلا کسی ٹھوس جواز کے مطعون کرتے ہوئے منافرت پھیلانا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا بیمار رویہ ہمیشہ کے لیے ناقابلِ قبول ہونا چاہئے۔آج کی مہذب دنیا صدیوں پر مشتمل شعوری سفر کے بعد اس مقام پر پہنچی ہے کہ مذہب کا سیاسی یا مفاداتی استعمال نہیں ہونا چاہئے مذہب یا عقیدہ تو سراسر بندے اور خدا کا معاملہ ہے اس میں کسی تیسرے کو ٹانگ اڑانے کا کوئی حق نہیں۔ خدا کی نظروں میں کون اچھا ہے کون بُرا ہے اس کا فیصلہ اُسی پروردگار عالم نے خود کرنا ہے کسی فرد یا گروہ کا یہ حق نہیں کہ وہ خود کو خدائی مقام پر فائز کرتے ہوئے انسانی جانوں کے فیصلے کرتا پھرے۔ بانی پاکستان نے پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں اس عہد کا اعلان فرمایا کہ آپ کا کوئی بھی عقیدہ ہے ریاست کو اس سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں ہے لہٰذا مذہبی حوالوں سے کسی بھی شہری کے عقائد کا جائزہ یا رکیک حملے کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہونا چاہئے اگر کوئی اس نوع کی حرکت کرتا ہے یا شوشے چھوڑتا ہے تو اس کے خلاف پارلیمنٹ کو سخت قانون سازی کرنی چاہئے۔
ریاست اپنے تمام شہریوں کے لیے مائی باپ کی طرح ہوتی ہے اُسے کسی بھی اصول کے لحاظ سے قطعاً یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھی شہری کے لیے محض عقیدے کی وجہ سے سوتیلی ماں کا روپ دھارے۔ ہماری سوسائٹی میں بربادی کی بڑی وجہ یہ ہوئی ہے کہ ہم نے دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں دخل اندازی کو جائز سمجھ لیا ہے یوں وطنِ عزیز کی اتنی بڑی ذمہ داری پر فائز شخصیت کے متعلق بے پر کی لمبی ہوائیاں چھوڑی گئیں جن کے متعلق شاعر نے کہا ہے کہ
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
اسی طرح عسکری ادارے کے متعلق سوشل میڈیا پر نیچ اور گھٹیا نوعیت کی زبان استعمال کی گئی وجہ اس کی محض حسد اور جلن تھی۔ اقتدار کے بھوکے ہر دور میں بکثرت رہے ہیں جو مفاداتی گیمیں بھی کھیلتے رہے ہیں وردی والے ہی نہیں سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یا ڈکٹیٹر بھی رہے ہیں لیکن انہیں کم از کم ڈگڈگی تو ڈھنگ سے بجانی آتی تھی جبکہ موجودہ کھلاڑیوں کا تو سارا مدار ہی خوشامد اور سازشی اسکیموں پر رہا ہے۔ شاید کچھ ایسے ہی عوام کی طرف سے ٹھکرائے ہوئے سیاسی یتیموں کے متعلق ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ میں انہیں اقتدار کی ہڈی دکھاؤں گا تو دم ہلاتے میرے پیچھے آجائیں گے۔ بھائی بیگانی یا مانگے تانگے کی بیساکھیوں پر آپ کون سا سنگھاسن حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے؟
ہمیں خوشی ہے کہ آج کسی نے یہ کڑوا سچ بولنے کی جرات کی ہے کہ ’’بھارتی جاسوس کے لیے وکیل کرنے سے لے کر ریکوڈک منصوبے اور سندھ طاس معاہدے سمیت ہر جگہ فوج مصروف کار ہے۔
تمام ذمہ داری فوج پر ڈالنے سے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا فوج اکیلے سب کام نہیں کر سکتی۔ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا اور ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔ وطنِ عزیز میں اسی دکھ کا رونا تو گزشتہ 7دہائیوں سے رویا جا رہا ہے۔ سوائے ان سیاسی یتیموں کے کون کہتا ہے کہ ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے کو سونپ دی جائے ہم تو کہتے ہیں کہ جوڈیشری کو بھی سیاسی معاملات میں ملوث کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ تمام تر سیاسی تنازعات و معاملات کے حل یا بحث مباحثے کی اصل جگہ پارلیمنٹ ہے سب وہیں بیٹھیں اور دلائل سے اپنا موقف رکھیں۔ اگر اکثریتی طاقت آپ سے قائل نہیں ہوتی تو عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں آپ عوام کی طاقت پر اعتماد کیوں نہیں کرتے۔ آپ منتخب جمہوری ایوانوں میں ایسی قانون سازی کروائیں جس میں منصفانہ و غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کی ضمانت ہو۔ آپ اس موضوع پر آئیں پورا میڈیا اور عوام آپ کی پشت پر ہوں گے لیکن اگر آپ کا ایجنڈا ہی کچھ اور ہے عوام کا محض نام استعمال کرتے ہیں اصل میں جوڑ توڑ اور سازشی سکیموں پر یقین رکھتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے۔ آپ اداروںسے وہ کام لینا چاہتے ہیں جو درحقیقت ان کے کام نہیں۔ اگر طالع آزمائی کی سوچ کے برعکس کوئی حقیقت پسند سالار بیٹھ جائے گا تو آپ کو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا لہٰذا اب بھی بہتری اسی میں ہے کہ عوام میں جایئے اپنی کارکردگی سے عوام میں جڑیں بنایئے لوگ تو استنبول یا تہران کی میئر شب سے محض اپنی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر قومی قیادت کے مقام پر فائز ہو گئے اور آپ نے پورے ایک صوبے کی حکمرانی میں بھی سوائے لعنت سمیٹنے کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ اب بھی جو وقت بچاہے اُسے دھرنوں اور احتجاجوں میں ضائع کرنے کی بجائے اپنی مثبت کارکردگی سے کچھ کر دکھانے کا حوصلہ پیدا کریں ۔

.
تازہ ترین