• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی، جون سے بغل گیر ہونے والا ہے۔ وطن عزیز میں ’’ایٹمی گرمی ‘‘ پڑرہی ہے اور لوڈشیڈنگ کا سورج بھی سوانیزے پر اُترا ہواہے ۔ ایسے میں بجٹ کی آمد آمد ہے اور حکمرانوں کی طرف سے کہاجارہاہے کہ بجٹ ’’عوام دوست ‘‘ ہوگا(ان سطور کے قلمبند ہونے تک ابھی بجٹ پیش نہیں کیاگیا )۔ایسے کسی ’’دوست‘‘ کے لئے غالب نے کہاتھاکہ
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اس آفاقی شعر کا پہلامصرعہ بھی عوام کی حالت ِزار اور بجٹ سے متعلق موضوع دکھائی دیتاہے کہ
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہم قبلہ اسحاق ڈار کے بنائے ہوئے بجٹ کو ’’فتنہ ‘‘ تو نہیں کہہ سکتے جو عوام کی ’’خانہ ویرانی‘‘ کیلئے آزمودہ فارمولہ ثابت ہوگا، لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ اکنامک ورلڈ کا کوئی مائی کا لعل مبلغ 16ہزار روپے ماہانہ کمانے والے محنت کش کے گھر کابجٹ نہیں بناسکتا۔ایسا کوئی سائنسدان ہے تو سامنے آئے ؟ مالی سال 2017-18ءکا حجم )5,500 ساڑھے پانچ ہزار) ارب روپے تک پھیل جائیگا،رواں سال اس کا حجم 4,894چار ہزار آٹھ سوچورانویںارب روپے تھا ۔جیسے جیسے بجٹ نزدیک آرہاہے اسکے متعلق دلچسپ حقائق سامنے آرہے ہیں۔ بیان کیا گیاہے کہ نئے بجٹ میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 1001ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے وفاقی وزارتوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 70ارب کا اضافہ کردیا گیاہے۔دوسری طرف مزدور کی ماہانہ تنخواہ میں چارہزار روپے اضافے کی تجویزکیساتھ حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جارہی ہے۔ اس مجوزہ سخاوت کو تو فلائنگ کک قراردیناچاہئے۔عوام دوست بجٹ کی اصطلاح اتنی ہی پرانی ہے جتنی دکھیارے عوام کی زندگی کے دکھ درد قدیمی ہیں۔یہ اصطلاح ہم بچپن سے سنتے سنتے پچپن کے ہونے والے ہیں لیکن آج تک کوئی ایسا بجٹ نہیں آیا جو حقیقی معنوں میں عوام دوست ہو۔ایک مرتبہ موسیقار ماسٹر عبداللہ سے کسی نے کہاکہ… بجٹ آرہاہے حکومت کو کیاتجویز کریں گے،بجٹ کیسا ہونا چاہئے… ماسٹر صاحب نے جھینپے بغیر کہا۔۔بجٹ کی استھائی اس دن ٹھیک بنے گی جب اس کی دھن اور کمپوزیشن حکومت کی بجائے عوام خود بنائینگے…ماسٹر عبداللہ اکانومسٹ نہیں تھے لیکن اتنا ضرورسمجھتے تھے کہ حکمران طبقے کو عوام کے دکھ درد اورمسائل سے کوئی سروکار نہیںہوتا ۔وہ اپنا ’’قیمتی وقت‘‘ سیاست میں اسلئے برباد نہیں کررہے ہوتے کہ انکے دل میں غریب عوام کی خدمت کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہوتاہے، وہ سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھ کر اس پر انوسٹ منٹ کرتے ہیں۔ وہ مولانا حسرت موہانی سے نہیں لکشمی متل سے متاثر ہیں۔مولانا حسرت موہانی سائیکل پر اسمبلی سیشن چلے جایاکرتے تھے اور یہ ہیلی کاپٹروں سے نیچے نہیں اترتے۔ 22ماہ کے ریکارڈ ٹائم میں تیار ہونے والے ساہیوال پاور پروجیکٹ کا فخریہ افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف کے ہاتھوں سرانجام پاگیا۔اس موقع پر ہمارے ہردلعزیز خادم اعلیٰ نے فرمایاکہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کی قیادت میں ملک سے اندھیرے ختم کرنے کے وعدے پورے ہورہے ہیں۔وعدوں کے پورے ہونے میں ٹائم اورپھرریکارڈ ٹائم کی بڑی اہمیت ہے۔لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ تو 6ماہ کا تھا۔پھر سال کا وعدہ کیاگیا،اس کا بعد دوسال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا۔5جون سے میاں صاحب کی حکومت کو پانچواں سال شروع ہوجائے گا اور 16گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تاحال جاری ہے۔ساہیوال پروجیکٹ تو ریکارڈ ٹائم میں بن گیا نندی پور پروجیکٹ کے سلسلے میں تو’’ریکارڈ‘‘خراب ہوگیاجو ہنوز زیر تعمیر ہے ۔ نندی پورپروجیکٹ کا خسارہ 12.3بلین تک پہنچ گیاہے جو پاکستان کرنسی میں اربوں روپیہ بنتاہے۔ نندی پور کی طرح سستی روٹی اسکیم میں بھی قوم اربوں کے خسارے جھیل چکی ہے اور گلشن کاکاروبار جاری ہے۔
پاناما کیس ہمارا’’قومی کھیل ‘‘ بن چکا ہے۔نوازشریف کے بعد عمران خان سے منی ٹریل پوچھی جارہی ہے۔عمران خان بھی کیااب کسی قطری کا خط لائیںگے؟ اگر وہ ایسا کریں گے تو یقینا وہ شریفوں کے قطری کے علاوہ کوئی اپنا قطری سامنے لائیں گے ۔۔فراز سے معذرت کے ساتھ۔۔تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز۔۔’’قطری ‘‘ ہوتانہیں ہرہاتھ ملانے والا۔۔ ذاتی طور پر عمران خان سے میری ملاقاتیںکم ہی رہی ہیں لیکن وہ بڑی دلچسپ تھیں ان کااحوال پھر کسی نشست میں بیان کروں گا ۔ذاتی طور پر ان کے قریب نہیں رہا لہذا ان کی مالیاتی دیانتداری کا ’’سلطانی گواہ‘‘ تو نہیںلیکن برادرم حسن نثار تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ’’عمران مسٹر کلین ہیں‘‘۔حسن نثار صاحب کے علاوہ بھی اس ملک کے کروڑوں غریبوں اور صاحب ثروت لوگوں نے عمران کی دیانتداری پر لبیک کہتے ہوئے شوکت خانم کینسر اسپتال سمیت اس کی یونیورسٹیوں اور دیگر اسپتالوں کے لئے کروڑوں روپے دئیے ہیں اور دیتے جارہے ہیں۔جرنلزم کاا سٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے میں PUBLIC PERCEPTION(رائے عامہ ) بنانے کی ’’سائنس اینڈ بزنس ‘‘ کو سمجھتا ہوں۔صحافت کے کسبی میڈیا سیل کے پروپیگنڈہ سے کسی کومسٹر ٹین پرسنٹ اور کسی کو عوام کا محبوب قائد بنانے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک مرتبہ مجھے اور خالد عباس ڈار کوچائے پر بلایا۔یہ ملاقات ڈیفنس لاہور میں ہوئی تھی اس زمانے کی اپوزیشن میاں برادران تھے جو اپنی تقریروں میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے۔میں نے گیلانی صاحب سے کہاکہ آپ کے خلاف ’’میڈیا ہینڈلنگ‘‘ کا فارمولاآزمایاجارہاہے۔ آپ کی امیری تو میاں برادران کی امارت کے سامنے آٹے میں نمک جیسی ہے پھر آپ یہ حقیقت سامنے کیوں نہیںلاتے ؟یوسف رضا گیلانی جنہوں نے ایم اےجرنلزم کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے مجھے نان ڈگری ہولڈر لگے ،انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی کا ووٹر کبھی کسی دوسری پارٹی کو ووٹ نہیں دیتا ،وہ ناراض ضرور ہوتاہے لیکن ڈھول بجنے اور دما دم مست قلندر کے نعرے پر دوبارہ لوٹ آتاہے۔اس ملاقات میں ،میں نے گیلانی صاحب سے کہاکہ پیپلز پارٹی کاووٹر نون لیگ میں شامل ہونے سے کتراتاہے لیکن پی ٹی آئی اسے نزدیک پڑتی ہے اس کی وجوہات بھی بیان کیں لیکن وہ نہ مانے جس کا نتیجہ وہ 2013کے انتخابات میں دیکھ چکے…اب ایک بات اور کی جارہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ کے لئے 40 سے 50کروڑ روپے مختص کئے جاچکے ہیں۔ یعنی علی بابا کا مقابلہ بل گیٹسوں کا ساتھ ہوگا۔ پیپلز پارٹی 47سیٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں موجود ہے ۔نون لیگ اور میاں برادران کے سی پیک، سڑکوں ،پلوں اور پاور پروجیکٹس کے فخریہ منصوبوںکے بعد آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کتنی سیٹیں نکال پاتی ہے یہ ایک چیلنج ہوگا۔ آنے والے الیکشن میں عمران خان کو بھی جلسہ ،دھرنا اور سڑکوں پر آنے کے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے کی اصل ’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘‘ سیکھنا ہوگی۔

.
تازہ ترین