• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر مسیحیوں کے مرکز ویٹی کن سٹی گئے تو عالمی امن، استحکام، سماجی ترقی، غربت کے خاتمے، رواداری اور برداشت کے حوالے سے گفتگو ہوئی جبکہ اسلام کے مرکز سعودی عرب گئے تو جنگوں میں تعاون اور جنگی ہتھیاروں کی خریداری کے حوالے سے باتیں ہوئیں۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ترجیحات کایہ فرق کیوں ہے؟
انتخابات دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ہوتے ہیں ان کے نتائج پر فریق مخالف کو اعتراضات بھی ہوتے ہیں اس کے باوجود تمام جمہوری ممالک میں مہذب رویہ یہی اپنایا جاتا ہے کہ ہارنے والے جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور انتخابی ماحول ختم ہونے کے بعد سب قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت یا دشمنی میں بدلنے سے احتراز کیا جاتا ہے آخر ہمارے ملک میں ہی ایسا کیوں ہے کہ جب یہاں مارشل لا نافذ ہوتے ہیں تو بحالی جمہوریت کی تحریکیں چلائی جاتی ہیں اور جب جمہوری حکومتیں منتخب ہو کر آتی ہیں تو اُنہیں گرانے یا کمزور کرنے کے لئے امپائر کی انگلی اٹھنے کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔ ہارنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابی عمل کو ایسا مشکوک بنا کر پیش کیا جائے کہ عوام کا جمہوریت پر ایمان ہی متزلزل ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ جب جمہوریت پر عوامی اعتماد کمزور ہو گا تو اس کا فائدہ کسے پہنچے گا؟
2013ء کے انتخابات اگر مثالی نہیں تھے تو بُرے بھی نہیں تھے بلکہ سابقہ کئی انتخابات سے کہیں بہتر تھے۔ خود سپریم کورٹ نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ان انتخابات میں کہیں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ اگر کچھ حلقوں سے شکایات آئیں تو ان کی حیثیت دو طرفہ تھی لیکن یہاں ان انتخابات کے خلاف پیہم طوفانِ بد تمیزی اٹھایا گیا دھرنوں، ہلڑ بازی اور گھٹیا نعروں کے ساتھ جمہوریت کو کمزور سے کمزور تر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ اگر متحارب فریقین میں فرق پانچ سات یا دس بارہ سیٹوں کا ہو پھر بھی شور شرابے کی کوئی سمجھ آتی ہے یہاں تو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والی وہ پارٹی تھی جس کی حاصل کردہ مجموعی سیٹیں 35سے زیادہ نہ تھیں۔ کوئی پوچھے خدا کے بندو! آپ لوگوں کو تو انتخابات میں کھڑے کرنے کے لئے مناسب امیدوار بھی نہ مل رہے تھے۔ ذرا اُن قومی حلقوں کی تعداد ہی نکال کر دیکھ لو جہاں آپ نے اپنے امیدوار تک کھڑے نہ کئے اور نتائج یہ ہیں کہ 35کا ہندسہ آپ عبور نہیں کر سکے ہو اور دعویٰ یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ گویا گھر کی لونڈی ہے۔
بہرکیف جب دھاندلی کے الزامات سے بات نہیں بنی تو کرپشن کرپشن کا کھیل کھیلا گیا۔ وطنِ عزیز کی سات دہائیوں پر مبنی تاریخ میں جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ہمیشہ سے دو نعروں کا منفی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جن میں سے ایک کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ ہے الحمدللہ اب کے یہاں یہ کھیل بھی ختم ہونے کو تھا کہ چالبازوں کی لاٹری نکل آئی جو منتخب جمہوری حکومت کے لئے کسی آسمانی آفت سے کم نہ تھی اور یہ تھی پاناما لیکس۔ معاملہ سامنے آتے ہی ہم نے محسوس کیا کہ بات نکلی ہے تو دور تک جائے گی، فرد چاہے کتنا ہی اہم ہو بہرحال فانی ہے۔ جمہوری اداروں کی توقیر پر حرف نہیں آنا چاہئے، مشورہ یہ دیا کہ نشری تقریر میں تمام صورتحال قوم کے سامنے رکھتے ہوئے اس اعلان کے ساتھ سرکاری عہدے سے مستعفی ہوا جائے کہ جب تک الزام سے سرخرو نہیں ہوتے پارلیمنٹ اپنا قائد منتخب کرنے میں آزاد ہے۔ آپ نے کہیں نہیں جانا ہے پارٹی قائد کی حیثیت سے تما م کنٹرول آپ ہی کے ہاتھ میں ہونا ہے، اگر چیلنج ہے تو یہ کہ اپنے معتمد ساتھی پر اپنی پارٹی کو یکجا و متفق رکھیں اس چیلنج کو قبول کرنا آپ کے لئے نا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ عدالتوں کو صاف جواب دے دیا جائے کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ جلا وطنی میں ہم جانوں کو بچا کر نکلے تھے، ثبوتوں کو کہاں بچاتے یا سنبھالتے جب آمروں نے ہمارے گھر تک چھین لیے تو وہاں پڑے ثبوت کہاں محفوظ رہ سکتے تھے۔ یوں غیر ضروری انٹرویوز اور تقاریر کی بھی ضرورت نہ تھی۔
آج معاملہ جہاں پھنسا ہے یہ بہت ہی افسوسناک ہے اس میں عزتِ سادات ہی نہیں جمہوریت کی حرمت پر بھی حرف آ رہا ہے۔ پارٹی کارکنان میں جس نوع کی بد دلی پھیل رہی ہے اس کا اندازہ سینیٹر نہال ہاشمی کی غیر ضروری و جذباتی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ دانا دشمن سے نادان دوست زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ نواز لیگ کو جو نقصان بدترین دشمن نہیں پہنچا سکے وہ اس افسوسناک راگنی نے پہنچا دیاہے لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ کسی ایک کارکن کے نازیبا الفاظ کو پوری حکمران پارٹی یا اس کی قیادت پر تھوپنا بھی سراسر زیادتی ہے جبکہ وزیراعظم نے بلاتوقف نہ صرف اس غیر ذمہ دارشخص کو پارٹی سے نکال باہر کیا بلکہ بطور سینیٹر اس سے استعفیٰ لینے میں بھی دیر نہیں کی۔ اس سب کے باوجود پوری جمہوری حکومت کے لئے مافیا جیسے الفاظ ناقابلِ فہم دکھائی دیتے ہیں۔ اب اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ ریمارکس حلف کے منافی ہیں تو اس کا جائزہ میرٹ پر لیا جانا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کا یہ موقف درست تھا کہ اس نو ع کے سیاسی معاملات عدالتوں میںنہیں جانے چاہئیں، یہاں کرپشن تو محض ایک بہانہ ہے اصل ایشو تو سیاسی زور آزمائی ہے جس کا اصل میدان پارلیمنٹ ہے۔
بہرحال اس ایشو کو کسی طرح بھی اداروں کے درمیان ٹکرائو یا چپقلش کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ انصاف کا معاملہ بڑا حساس ہوتا ہے جسے محض ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔
آج حسین نواز عدالتیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں، ایک ملاقات میں ہم نے دریافت کیا تھا کہ آپ سیاست میں کیوں نہیں آتے تو جواب ملا کہ سیاست میں الزام تراشی کے سوا کیا رکھا ہے، مگر آج اسے بھی وہی سب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم یہی کہیں گے کہ آپ لوگوں نے جب خود کو رضاکارانہ طور پر عدالتوں کے سامنے پیش کیا ہے تو پھر یہ سب کچھ بخوشی بھگتیں البتہ سیاسی حوالے سے بہتر بندوبست کا اہتمام ضرور کر لیں۔ آئندہ انتخابات میں ن لیگ کی عوامی مقبولیت اور پارٹی طاقت کو بکھرنے سے بچانا ہی میاں صاحب کے لئے اصل چیلنج ہونا چاہئے، اسی میں جمہوریت کا بھلا ہے۔



.
تازہ ترین