• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوست نےمجھے اچانک گاڑی روکنے کا کہا تومیںنے وجہ پوچھی کہنے لگا یار دیکھو سڑک کنارے کیسے خوبصورت خوبصورت تربوز سجائے بیچ رہا ہے ، میرا خیال ہے کہ ایک اچھاسا تربوز خرید لوں اور آج افطاری تربوزکے ساتھ کروں اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا میرا دوست اترا اور تربوز والےکے پاس پہنچ گیا اور کچھ ہی لمحوں میں تربوز خرید کر واپس آگیا ۔ میں نے دوست سے کہا یا ر تمہیں معلوم ہے، ان دنوں فروٹ خریدنے کے خلاف مہم چل رہی ہے کیونکہ رمضان میں فروٹ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ہے قیمتیں ڈبل سے بھی زیادہ تجاوز کر گئی ہیں۔میرا دوست میری طرف دیکھتے ہو ئے اس طر ح میر ی با ت سن رہا تھا جیسے وہ اس ساری با ت سے لا علم ہے، حا لا نکہ سو شل میڈ یا پر فرو ٹ کی خر ید اری کے خلا ف ایک طو فا نی مہم چل رہی ہے۔ اس حوالےسے اسے جب سب کچھ بتا چکا تو میرا دوست کہنے لگا پہلی با ت تو یہ ہے کہ تربوز پھل یا فروٹ نہیں بلکہ سبزی ہے۔ میں نے اس پر اعتراض کیا تو اس نے کہا چلو تمہاری مان لیتے ہیں یہ ایک پھل ہی ہے لیکن تم جانتے ہو کہ عموماً تربوز فروش ہر قسم کے پھل بیچنے کی بجائے صرف تربوز ہی بیچتے ہیںاور رمضان کے شروع ہونےسےپہلے بھی تربوز کی قیمت 20سے 30روپے کلو تھی اور اب بھی اسکی قیمت اتنی ہی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا اور یہ واحد پھل ہے جس کی خریداری اور تولنے کے بعد اسکی ادائیگی آپ اس وقت تک نہیں کرتےجب تک تربوز کو کٹ لگا کر اسکی سرخی یعنی رنگ وغیرہ دیکھ نہیںلیتے اور اگر کٹ لگے تربوزمیں ذرا سی بھی خامی نظر آئے تو دوسرا تربوزلیتے ہیں اوریہ واحد پھل ہے جسے ہم بہت حقیر پھل سمجھتے ہیں یہ جو میں نے تربوز خریدا ہے یہ چھ کلو سے زائد ہے اور میں نے ایک سو اسی روپے (180روپے )ادا کیے ہیں ہمارا چھ لوگوں کا کنبہ اس 180روپے کے پھل کو جی بھر کر کھائے گا اور پھر بھی یہ ختم نہیں ہوگا روزےکے بعد پیاس کی جوشدت ہوتی ہے اور روز دار شربت یا پانی کے کئی جگ پی جاتاہے اور پیٹ پھول کر گیند کی شکل اختیارکرلیتا ہے اسکے مقابلے میں تربوز کھانےسے آپکی پیاس کی شدت کو کم کرکے اس پیا س کو پورا کر دیتاہے ، چاٹ ، پکوڑے ، سموسے ، کچوریاں اور دیگر الا بلا کھا کر ہم اپنے معدےکے نظام میں جو بگاڑپیدا کر دیتے ہیں اسکو تربو ز درست کرنے میں مدد دیتا ہے کینسر کے خلاف ایک بہتر ین مدافعتی ٹانک یا دواہے یہ تربوزہے جو آپکے رنگ کو صاف اور بالوں کو خوبصورت بنانےمیں معاون ثابت ہوتاہے اور اسکی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ ان بزرگوں یا مریضوں کوجو یورین پاس ہونے کی تکلیف میں مبتلا ہیں انکےلیے بہترین دوا ہے میرا دوست تربوز کے حق میں ہمارے ایک دوست وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی طرح جب لمبی تقریر جھاڑچکا تومیںنے کچھ کہنے کےلیے لب ہلاناچاہے ہی تھے کہ بول اٹھا کہ یہ فروٹ کو نہ خرید کر اورگراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوںکے خلاف مہم چلا کر عوام نے ایک اچھی یکجہتی کا اظہار کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ فروٹ کی خریداری کے بائیکاٹ سے زیادہ متاثر کون ہوتاہے وہ کچھ دیر کےلیے خاموش ہوا اور فوراً بولا گاڑی واپس موڑو۔۔۔! گاڑی واپس موڑو۔۔۔! میں دوست کے اچانک چلااٹھنے سے گھبرا گیا میں اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن میرا دوست مجھے ایک دوسری سڑک پر لے گیا اور کچھ دور جانے کے بعد اچانک روکو روکو کا نعرہ لگانا شروع کردیا گاڑی روکی تومجھ سے بات کئے بغیر نیچے اتر گیا میں بھی اسکے ساتھ نیچے اتر گیا میرا دوست گندگی سے اٹے ہوئے ایک شخص سے مخاطب تھا اور کہہ رہا تھا شیرے تم یہ کیا کر رہے ہو اور تمہاری فروٹ کی ریڑھی کہاں ہے۔ شیرا بولا جنا ب دو دن سے فروٹ کے بائیکاٹ کی وجہ سے فروٹ نہیں بک رہا تھا بلکہ سارا آم اورکیلا گل سڑ گیا تھا جو روزانہ پانچسویا ہزار کی دیہاڑی لگتی تھی وہ بھی گئی اور جو مال خریدا تھا وہ بھی نقصان ہوگیا ۔سڑ ک کنا رے ایک کوٹھی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا ان کا گٹر چوک ہوگیا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ گٹر کھول دو ، تین سو روپے دیں گے۔ میں نے کہا چلوںبچوں کی روزی کےلیے میں کرلیتا ہوں لیکن صاحب اگر گٹر کی صفائی کے دوران مجھے کچھ ہوگیا تو یہ کہہ کر انکار نہ کرنا کہ اس گندے شخص کو پہلے نہلائو پھر علاج شروع ہوگا اور میں بھی عمر کوٹ کے مزدور کی طرح تڑ پ تڑپ کر مر جا ئوں، دوست نے کہا ایسی با ت نہیں ہے ، میر ی گاڑی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ورکشاپ میں کھڑی ہے اس لئے ادھر کا چکر نہ لگا سکا ابھی یاد آیا تو سوچاتم سے کچھ پھل خریدوں گا لیکن تم ۔۔۔۔۔! دو ست نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے اسکے انکار کے باوجود اسے دیے اور پھر اسکی گندی پیٹھ کو تھپتھپا یا اس سے ہاتھ ملایا اور ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس تعفن اور بدبووالی جگہ سے نکل کر سکون سا ملا ،میں نے اے سی اور تیز کردیا لیکن بدبو گاڑی میں بھی آنے لگی تھی ۔میری نظر دوست کے ہاتھ پر پڑی تو اندازہ ہوا کہ اس نے پیٹھ تپھتپھاتے اور ہاتھ ملانے میں بہت ساری گندگی اپنے ہاتھوں پر بھی لگا لی تھی جس کی بدبو گاڑی میں پھیل رہی تھی لیکن میرا دوست نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا میںنے اسے اسکے گھر اتار ا اور خود گھر جانے کی بجائے کار واشنگ اسٹیشن چلا گیا۔ گا ڑ ی د ھو نے وا لے کو کہا سارے دروازے کھول کر گاڑی کو اچھی طرح صاف کرو، لیکن میں نے غور کیا تو گاڑی صاف کرنے والے کی حالت بھی اس گٹر صاف کرنے والے پھل فروش سے مختلف نہ تھی لیکن اس نے تھوڑی دیر میں میری گاڑی کو چمکا دیا اند رسے بدبو غائب ہو چکی تھی میں گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ گندے لوگ کتنے عظیم ہوتے ہیں جو ہمیں صاف ستھرارکھنے کےلیے خود کو گندا کر لیتے ہیں اور ہم ان کا علاج تک کرنے کو تیار نہیں ۔


.
تازہ ترین