• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال کی ایک نظم میں دوزخ کہتی ہے؎
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
یعنی مجھ میں اپنی آگ کوئی نہیں ہے، گنہگار اپنے گناہوں کی آگ میں خود جلتے رہتے ہیں۔
اقبال نے تو یہ بات موت کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے کہی ہے جبکہ ہم سب اسی دنیا میں بہت سے لوگوں کو اپنی اپنی آگ میں جلتے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی آگ خواہشات کی آگ ہے ۔ بے شمار دلوں میں خواہشات کے الائوجل رہے ہیں، آپ کبھی اس قماش کے کسی شخص کے پاس بیٹھیں تو اس الائو کی تپش خود آپ کو بھی محسوس ہوگی۔ یہ خواہشات وہ نہیں ہیں جن کا تعلق زندگی کی ضرورتوں سے ہے اور جن کی تکمیل کے بغیر یہ زندگی بھی جہنم بن جاتی ہے بلکہ یہ بے پناہ مال و زر کی خواہش ہے۔ اس خواہش کے مریض کے بینک بیلنس کی بھوک ختم ہونے ہی میں نہیں آتی اور وہ اس کی بھوک مٹانے کے لئے کتنے ہی گھروں کے چولہے بجا دیتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، خوراک میں ملاوٹ کرتا ہے، جعلی ادویات بناتا ہے، رشوت لیتا ہے، ضمیر فروشی کرتا ہے، قوم فروشی کرتا ہے، وہ سب کچھ کرتا ہے جو دوزخ کے اس الائو کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جائے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی زندگی ہی میں نہ صرف اندر ہی اندر جھلستے رہتے ہیں بلکہ میں نے ایسے لوگوں کو ان کی زندگیوں ہی میں عبرتناک انجام سے دوچار ہوتے دیکھا ہے، کبھی ان کا اپنا انجام اور کبھی ان کی اولاد کا انجام ان کے گناہوں کی دہائی دیتے نظرآتے ہیں، مگر یہ ایسی بیماری ہے کہ جو ایک دفعہ اس میں مبتلا ہو جائے، یہ اسے اس کے انجام تک پہنچا کر ہی رہتی ہے۔
ایک آگ اس کے علاوہ بھی ہے اور یہ اقتدار کی آگ ہے، اقتدار کی کئی قسمیں ہیں، اس کی سب سے اوپر والی سیڑھی تک پہنچتے پہنچتے میں نے بہت سوں کی سانسیں پھولتی دیکھی ہیں اور ان میں سے کئی ایک کو سیڑھی سے پھسل کر گرتے بھی دیکھا ہے۔ اس تگ و دو میں ملک و قوم کے مفاد کو پائوں تلے روندتے چلے جانا اور اپنی ذات کو سب پر مقدم سمجھنے والے بہت سے لوگ میں نے بھی دیکھے ہیں اور آپ نے بھی دیکھے ہوں گے۔ مگر یہ بتائیں ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت اور احترام جگانے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ انسان خود کو سب سے زیادہ جانتا ہے، چنانچہ یہ عمر بھر اپنی عزت بھی نہیں کر پاتے اور اپنے دل میں اپنی محبت بھی پیدا نہیں کر پاتے۔ اقتدار کا یہ چسکا انہیں اندر ہی اندر جھلساتا رہتا ہے اور تنہائی میں یہ خود سے آنکھیں چھپاتے پھرتے ہیں، مگر پھر بھی وہ اس کیفیت سے نکلنا نہیں چاہتے اوراس حوالے سے میں اپنا ایک جملہ پھر سے دہرانا چاہتا ہوں کہ ضمیر انسان کو گناہ سے نہیں روکتا، صرف گناہ کا مزا کرکرا کرتا ہے، سو ساری عمر ان کا یہ مزا کرکرا ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے گناہوں کی چادر تان کر سو جاتے ہیں، جہاں وہ انگارے ان کے منتظر ہوتے ہیں، جو وہ اپنے ساتھ لے کر گئے ہوتے ہیں۔
اقتدار کسی ایک چیز کا نام نہیں، بلکہ طاقت ور طبقوں میں شمولیت کا نام بھی ہے، اگر عدلیہ اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ بے لگام نظر آنے لگتی ہے، اگر میڈیا اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ خود پر ’’بری نظر‘‘ ڈالنے والوں کی آنکھیں نکال لیتا ہے، اگر دوسرے ریاستی ادارے اتنے طاقت ور ہو جائیں کہ ادارے آگے نکل جائیں اور ریاست پیچھے رہ جائے، اگر سرمایہ دار طبقہ اتنا طاقتور ہو جائے کہ وہ کسی ریاستی حکم کو ماننے سے انکاری ہو جائے، اگر مذہبی پیشوا مذہب کو طاقت کے حصول کے لئے استعمال کرنا شروع کردیں تو پھر ان شعبوں میں ایک نئی دوڑ شروع ہو جاتی ہے یہ دوڑ وہ ہے جس میں حصہ لینے والے دراصل آگ سے کھیل رہے ہوتے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ یہ آگ صرف ان کے دامن کو نہیں جھلساتی،رفتہ رفتہ پورا ملک اس آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اور پھر کوئی بھی نہیں بچتا، نہ کھلاڑی اور نہ تماشائی! اس کے بعد رہے نام اللہ کا!
ایک آگ اور بھی ہے جس میں بے شمار لوگ جل رہے ہیں، یہ حسد کی آگ ہے۔ انسان جونہی حسد میں مبتلا ہوتا ہے اس کے جسم کی کیمسٹری بدلنا شروع ہو جاتی ہےاور یوں اسے اس گناہ کی سزا فوری طور پر ملنے لگتی ہے۔ حسد کرنے والے لوگ ان سب کی پگڑیاں اچھالنے لگتے ہیں، جنہیں معاشرے نے اپنے دلوں میں جگہ دی ہے، وہ بہتان لگاتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں اور انہی جیسے لوگ ان کے ساتھ آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں کام سوشل میڈیا پر پورے زور و شور سے ہورہا ہے۔ سیاست میں دھڑے بندی کی وجہ سے اختلاف کرنے والوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی عفت مآب مائوں اوربہنوں کو بھی گندے الزامات کی زد پر رکھا جاتا ہے۔ ایک اسی طرح کا طبقہ شعبہ ادب میں بھی موجود ہے، اس کلاس میں وہ لوگ ہیں، جن کی کوئی کلاس نہیں، یہ طبقہ میرؔ و غالبؔ کے زمانے میں بھی موجود تھا مگر ان کی خوش قسمتی تھی کہ اس زمانے میں فیس بک نہیں ہوتی تھی، بہرحال یہ تمام طبقات دوسروں کے علاوہ خود اپنے ساتھ بہت ظلم کرتے ہیں، ان سب نے آگے چل کر چونکہ آگ میں جلنا ہی ہے، چنانچہ یہ اسی دنیا سے پریکٹس شروع کردیتے ہیں اور آگ سے کھیلنے لگتے ہیں۔ اللہ پاکستانی قوم کے حال پر رحم کرے!

تازہ ترین